اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد کو مبینہ طور پر ایک غیر ملک سفیر کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں مقامی عدالت کی طرف سے دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے اُن کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اے ایس آئی ظہور احمد کو جمعرات کے روز مقدمے کی سماعت کے بعد فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکار کے خلاف یہ مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 13 دسمبر 2021 میں درج کیا گیا تھا جس کے بعد اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے انھیں تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اے ایس آئی ظہور احمد کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد مقامی عدالت کی جانب سے تین سال قید کی سزا سُنائے جانے کے بعد سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں زیرِ حراست ہیں۔
معاملہ تھا کیا؟
واضح رہے کہ پولیس اہلکار اے ایس آئی ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمے کا اندراج 13 دسمبر 2021 کو کیا گیا تھا جبکہ 14 دسمبر2021 کو ملزم کو پہلی بار ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی وِنگ کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق گولڑہ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر اے ایس آئی کو خفیہ دستاوزات یا معلومات ’غیر ملکی سفیر/ایجنٹ‘ کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ باوثوق ذریعے کی جانب سے بتایا گیا کہ اے ایس آئی گولڑہ ظہور احمد ایک غیر ملکی سفیریا ایجنٹ سے ملاقات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
ایف آئی آر میں متعلقہ شخص کی سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا کا رجسٹریشن نمبر بھی درج تھی اور ساتھ لکھا گیا کہ اے ایس آئی کی اس ملاقات کا مقصد خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنا تھا جو کہ ملکی مفاد کے خلاف ہے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ اے ایس آئی نے غیر ملکی سفیر یا ایجنٹ سے میٹرو بس سٹیشن کے پاس جناح ایونیو پر ملنا تھا۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنا پر ایک ٹیم تشکیل دی گئی جو وہاں پہنچی۔
بتایا گیا کہ وہاں موجود ذریعے نے تصدیق کی کہ ایک ٹویوٹا کرولا گاڑی، جس کے شیشے کالے تھے، میں اے ایس آئی کو کہیں لے جایا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق کچھ دیر بعد وہی ٹویوٹا کرولا اے ایس آئی کو واپس اسی مقام پر اتار کر چلی گئی جس کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم نے انھیں گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اے ایس آئی کے پاس دو فون تھے اور اُن کے ہاتھ میں ایک لفافہ بھی تھا لیکن وہ غیر ملکی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقات کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکے۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ تھا کہ ملزم نے موقع پر ہی انکشاف کیا کہ وہ غیر ملکی سفیر/ ایجنٹ کو خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنے کے بدلے پیسے لے رہے تھے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ بادی النظر میں اے ایس آئی کا یہ اقدام 1923 کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور انسداد کرپشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم تھا۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ اے ایس آئی کی تحویل سے 50 ہزار کیش، اے ٹی ایم کارڈز اور یو ایس بی بھی برآمد ہوئی۔
اس سے قبل اسی سال 30 نومبر کو اے ایس آئی کی مبینہ گمشدگی کی خبریں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں تاہم پولیس نے ان کی گمشدگی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس کے بعد ان کے فون سے ان کی اہلیہ کو ایک پیغام موصول ہوا تھا کہ وہ مری گئے ہوئے ہیں اور دو روز بعد وہ گھر واپس پہنچ گئے تھے۔