کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں پیر کے روز تشدد کے باعث پولیو کی ٹیموں کی سکیورٹی پر مامور تین اہلکار زخمی ہوگئے۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کی ٹیموں کو چمن میں تین مختلف مقامات پر لوگوں کی ہجوم نے کام سے روک دیا۔
خیال رہے کہ رواں سال بلوچستان میں تین سال بعد چمن سمیت تین علاقوں میں پولیو کے تین کیس رپورٹ ہوئے۔ پیر کے روز سے پولیو کے خلاف چمن سمیت بلوچستان کے 14 اضلاع میں 7 روزہ مہم شروع کی گئی۔
چمن میں پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ جب شہر میں پولیو کی ٹیمیں کام کے لیے نکلیں تو لوگوں کی ہجوم نے تین مقامات پر ان کو کام سے روک دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران بعض لوگوں نے پولیو کی ٹیموں کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر تشدد کیا جس کی وجہ سے پولیس کے ایک اور لیویز فورس کے دو اہلکار زخمی ہوئے۔
تاہم ڈپٹی کمشنر چمن اطہر عباس راجہ نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو خواتین پولیو ورکرز کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو کی ٹیموں پر حملے میں مبینہ طور پر چمن میں جاری دھرنے سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث تھے۔
یہ دھرنا گزشتہ سال 21 اکتوبر سے چمن سے افغانستان آمد و رفت کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے پاسپورٹ کی شرط عائد کرنے کے خلاف دیا جارہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے الزام عائد کیا کہ ’دھرنا کمیٹی کی جانب سے یہ انتہائی غلط اقدام کیا گیا۔ اس میں ملوث لوگوں کے خلاف نہ صرف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف کاروائی بھی کی جائے گی۔‘
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ’پولیو کے خلاف مہم جاری رہے گی اور پولیو ٹیموں کو مزید سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ نے متعلقہ حکام کو پولیو ٹیموں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند بتایا کہ ’پرامن احتجاج ہر ایک کا حق ہے لیکن اگر کوئی تشدد کا راستہ اختیار کرے گا تو ریاست رد عمل ظاہر کرے گی۔‘