سائفر کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے اُنہیں بری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پیر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے اکتوبر 2022 میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر پر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید کی جانب سے بھجوائے گئے سائفر کو لیک کرنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ عمران خان پر بطور وزیرِ اعظم اور شاہ محمود قریشی پر بطور وزیرِ خارجہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے تھے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 180 سے زائد مقدمات درج ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں درج ہونے والے دس مقدمات میں متعقلہ عدالتیں سابق وزیر اعظم کو بری کر چکی ہیں جبکہ توڑ پھوڑ کے ایک مقدمے میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو 28 جون کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

سائفر ہوتا کیا ہے؟

سائفر کسی بھی اہم اور حساس نوعیت کی بات یا پیغام کو لکھنے کا وہ خفیہ طریقہ کار ہے جس میں عام زبان کے بجائے کوڈز پر مشتمل زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈڈ زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ’سائفر اسسٹنٹ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔

سائفر کیس کیا ہے؟

27 مارچ 2022 کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں جلسے کے دوران ایک خط لہراتے ہوئے عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ یہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے لکھا گیا سائفر ہے، جس میں ان کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

عمران خان پر سائفر کیس اس لیے بنایا گیا تھا کہ انہوں نے 2022 میں امریکا میں اس وقت تعینات پاکستان کے سابق سفارت کار اسد مجد کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کا انکشاف کیا جبکہ سائفر کو سفارتی سرکاری دستاویز کی حثیت حاصل ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے سرکاری دستاویز سائفر سے متعلق یہ کہا تھا کہ اپریل 2022 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔

لیکن یاد رہے کہ نہ صرف امریکی حکام کی جانب سے سائفر کی تردید کی گئی بلکہ پاکستانی حکومت بھی سائفر کے حوالے سے کہہ چکی ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ امریکا نے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کی ہو۔

بعدازاں عمران خان کے خلاف سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جبکہ حکومت کی طرف سے جیل میں مقدمہ چلانے کی وجہ عمران خان کی زندگی کو لاحق سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی خدشات بتائے گئے تھے۔

عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن وہ گرفتاری سے قبل توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے اور ان سے اٹک جیل میں ہی سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔

عمران خان توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کی معطلی کے باوجود سائفر کیس کی وجہ سے اٹک جیل میں ہی رہے، بعد ازاں عمران خان کی ہی درخواست پر انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کردیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں