نیو یارک (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک امریکی عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایک برطانوی بینک نے ’دہشت گرد‘ گروہوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے لیے اربوں ڈالر کی ٹرانزیکشنز کیں۔
’سٹینڈرڈ چارٹرڈ‘ بینک اس سے قبل سنہ 2012 میں امریکہ کے محکمہ انصاف کی جانب سے قانونی کارروائی سے اس وقت بچ گیا تھا، جب برطانوی حکومت نے اس معاملے میں مداخلت کی تھی۔
نیویارک کی عدالت میں جمع کرائی گئی نئی دستاویز میں دعویٰ کی گیا ہے کہ سنہ 2008 سے 2013 کے درمیان ایران کے پر عائد عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بینک نے 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی ہزاروں ٹرانزیکشنز کی ہیں۔
نئی دستاویزات کے مطابق ایک خودمختار ماہر نے بینک کی جانب سے ایسی شخصیات اور کمپنیوں کے ساتھ تقریبا 10 ارب ڈالر مالیت کی مالی ٹرانزیکشنز کی نشان دہی کی ہے جو امریکی حکومت کے مطابق حزب اللہ، حماس، القاعدہ اور طالبان جیسے گروہوں کی مالی معاونت کرتی ہیں۔
بینک کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس ماہر کے دعوے کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ماضی میں ان کے خلاف الزامات کو امریکی حکام مسترد کر چکے ہیں۔
پابندیوں کی خلاف ورزی
سٹینڈرڈ چارٹرڈ پر الزام ہے کہ اس نے ’سوئفٹ‘ کے ذریعے اپنی نیویارک برانچ سے ایران کے مرکزی بینک جیسے اداروں کو اربوں ڈالر کی ٹرانزیکشنز کے ڈیٹا کو غلط انداز میں پیش کیا۔
واضح رہے کہ ’سوئفٹ‘ بین الاقوامی ادائیگیوں کا نظام ہے، جسے ہزاروں مالیاتی ادارے استعمال کرتے ہیں۔
لیکن ستمبر 2012 کے دوران اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کیمرون کی حکومت کے چانسلر جارج اوزبورن نے خفیہ طور پر بینک کی جانب سے مداخلت کی۔ اس کے تین ماہ بعد امریکی محکمہ انصاف نے بینک کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عدالتی دستاویز میں جن غیر ملکی زرمبادلہ کے لین دین کی نشاندہی کی گئی، ان کا سامنے آنا ابھی باقی ہے تاہم دستاویز میں یہ تجویز نہیں کیا گیا کہ اوزبورن یا کیمرون حکومت کو اس وقت ان ٹرانزیکشنز کا کوئی علم تھا۔
بینک نے دو مرتبہ، پہلی بار سنہ 2012 اور پھر سنہ 2019 میں ایران اور دیگر ممالک کے خلاف پابندیوں کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا، جس کی وجہ سے اسے 1.7 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تاہم اس نے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کے لیے لین دین کا اعتراف نہیں کیا۔
بینک کی جانب سے کی جانے والی یہ متنازع ٹرانزیکشنز ان خفیہ دستاویزات کا حصہ ہیں جو پہلی بار دو ہزار بارہ میں دو افراد نے امریکی حکام کے حوالے کی تھیں۔ ان افراد میں بینک کے سابق ایگزیکٹیو جولیان نائٹ بھی شامل تھے جن کا الزام ہے کہ امریکی حکومتی ایجنسیوں نے عدالت میں غلط بیانی کی تاکہ یہ معلومات فراہم کرنے کے عوض ان کو انعامی رقم نہ مل سکے۔
اس معاملے کی تحقیقات میں شامل امریکی حکام نے سنہ 2019 میں اس کیس کو خارج کرنے کے لیے درخواست دی۔
ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ نے عدالت میں دعویٰ کیا تھا انھیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ بینک غلط لین دین میں ملوث ہے۔
امریکی حکام نے اس بات ہر زور دیا کہ وسل بلور کے الزامات سے ’کوئی نئی خلاف ورزیاں سامنے نہیں آئیں‘ جس کے بعد عدالت نے اس کیس کو ’بے بنیاد‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
تاہم انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت کے بارے میں کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے ماہر ڈیوڈ سکینٹلنگ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
گزشتہ جمعے کو عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے بیان حلفی میں انھوں نے کہا کہ بینک کی خفیہ سپریڈ شیٹس میں 2008 اور 2013 کے درمیان پانچ لاکھ سے زیادہ ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موجود ہے۔
ڈیوڈ سکینٹلنگ کے بیان کے مطابق ریکارڈ میں سٹینڈرڈ چارٹرڈ کی جانب سے ’ایرانی بینکوں، ایرانی کمپنیوں اور مشرق وسطیٰ کے منی ایکسچینجز کے ساتھ یا ان کی جانب سے متعدد ٹرانزیکشنز کی گئیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ نے سینٹرل بینک آف ایران کے ایک فرنٹ بینک کے لیے اس وقت بھی ٹرانزیکیشنز کیں جب اس نے سنہ 2007 میں ایران میں اپنے آپریشن روکنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اور یہ سب اس وقت ہوا جب بینک ’ٹرم آکشن‘ سہولت (Term Auction Facility) سے اوسطاً 2 ارب ڈالر یومیہ قرض لے رہا تھا۔
واضح رہے کہ ’ٹرم آکشن‘ سہولت ایک ہنگامی امدادی پروگرام تھا جو امریکی حکومت نے سنہ 2007 اور 2009 کے عالمی مالیاتی بحران کے دوران بینکوں کی مالی معاونت کے لیے ترتیب دیا تھا۔
عدالتی دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس لین دین میں ایک پاکستانی فرٹیلائزر کمپنی ’فاطمہ فرٹیلائزر‘ کی ٹرانزیکشنز بھی شامل ہیں، جو ایسا دھماکہ خیز مواد فروخت کرنے کے لیے جانی جاتی ہے جو طالبان کی جانب سے سڑک کنارے نصب بموں میں استعمال کیا تھا۔ ان بم دھماکوں کی وجہ سے افغانستان میں ہزاروں برطانوی اور امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
دستاویزات میں الزام لگایا گیا ہے کہ فٹبال گروپ لیور پول کے یونیفارم کے سپانسر سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے، گیمبیا کی ایک فرنٹ کمپنی کے لیے بھی 73 ٹرانزیکشنز کیں جس کے مالک حزب اللہ کے ایک اہم فنانسر محمد ابراہیم ہیں۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی جانب سے پابندیوں کی خلاف ورزی پر تحقیق کرنے والے نیویارک ڈیپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز کے سابق جنرل کونسل ڈینیل الٹر نے ان نئے انکشافات کو ’حیران کن‘ قرار دیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ’نہ صرف تجارتی اداروں بلکہ دہشت گرد تنظیموں اور حماس، حزب اللہ، القاعدہ اور طالبان جیسی دہشتگرد تنظیموں کی معاونت کے لیے بنائی گئی کمپنیوں کے ایک خوفناک تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جو کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں اور ہم اس بارے میں نہیں جانتے تھے کیونکہ ہمارے پاس موجود ڈیٹا سے یہ ظاہر نہیں ہوتا تھا۔‘
سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے اور یہ زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں صارفین کو خدمات فراہم کرتا ہے۔
جب اوزبورن نے خفیہ طور پر اس معاملے میں بینک کی جانب سے مداخلت کی تو ان کے خلاف امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے منی لانڈرنگ کی کارروائی کا خطرہ تھا۔
10 ستمبر 2012 کو اوزبورن نے امریکہ کے مرکزی بینک کے چیئر پرسن بین بیرنانک اور امریکی صدر کے سیکرٹری خزانہ ٹم گیتھنر کو خط لکھا۔ اس سے اگلے ہی مہینے اوزبورن نے ان دونوں سے ملاقات بھی کی۔
بینک کے کسی بھی اعلی عہدیدار کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی۔
اسی مہینے جولین نائٹ نے امریکی حکام سے رابطہ کیا اور اس بات کے شواہد پیش کیے کہ بینک کی بدانتظامی اس سے کہیں زیادہ بدتر تھی جس کا اس نے اعتراف کیا تھا اور یہ سلسلہ سنہ 2007 کے بعد بھی جاری رہا۔
سنہ 2019 میں سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے سنہ 2007 اور 2011 کے درمیان لین دین کے سلسلے میں ڈی پی اے پر مزید اتفاق کیا اور اس پر مزید 1.1 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
’بے بنیاد دعوے‘
اس معاملے پر ایف بی آئی اور محکمہ انصاف دونوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم کیمرون اور اوزبورن نے بھی اس بارے میں بات نہیں کی۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ نے کہا ہے کہ ’اسے یقین ہے کہ عدالت ان دعووں کو مسترد کر دے گی۔‘
بینک نے یہ بھی کہا ہے کہ ’امریکی حکام نے اس سے پہلے بھی وسل بلورز کے دعووں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا اور ’امریکی پابندیوں کی کوئی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی۔‘
لیکن وسل بلورز کا دعویٰ ہے کہ امریکی حکام نے وسل بلورز کی جانب سے فراہم کردہ شواہد کی تردید کر کے ’دھوکہ دہی‘ کا ارتکاب کیا۔