برسلز (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) ایران نے کچھ جوہری تنصیبات کو ڈیکلیئر نہیں کیا ہے۔ ساتھ ہی تہران حکومت پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کی اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی میں رخنے ڈال رہی ہے۔ یورپی طاقتوں کا ایران پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
یورپی طاقتوں نے پیر کو اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ بورڈ آف گورنرز کو اس ہفتے ووٹنگ کے لیے ایک مسودہ قرار داد پیش کیا ہے، جس کا مقصد ایران پر دوبارہ دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ ایسی تنصیبات میں یورینیم کے نشانات کی موجودگی کا جواز پیش کرے، جو اس نے بطور جوہری تنصیب ڈیکلیئر نہیں کی ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی تہران کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات کی نگرانی کے لیے انسپکٹرز پر پابندی جیسے مسائل کی وضاحت بھی مانگی گئی ہے۔
یورپی طاقتوں کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کا مسودہ جسے روئٹرز نے دیکھا ہے، دراصل 18 ماہ قبل منظور کی گئی قرارداد کے بعد سامنے آیا ہے۔ تب تہران حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایک سال طویل عرصے سے طے شدہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تحقیقات پر فوری طور تعمیل کی جائے۔ ایک دیگر متن میں ایران سے مطالبہ کیا گیا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ بلاتاخیر تعاون کرے تاکہ اس ایجنسی کے معائنہ کاروں کو اجازت دی جائے کہ وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات سے ٹیسٹ کے لیے نمونے لے سکیں۔
ایران سے مزید مطالبات کیا ہیں؟
ایران سے کیے جانے والے مطالبات کے دائرہ وسیع تر ہے اور اس میں ان مسائل پر بھی زور دیا گیا ہے، جو حال ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایران کی طرف سے آئی اے ای اے کے بہت سے سرکردہ افراد کو جو یورینیم کی افزودگی کے ماہرین ہیں اور معائنہ ٹیم کا حصہ ہیں کو اپنا کام انجام دینے سے باز رکھا گیا۔
ایران سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کو واپس لے اور مارچ 2023ء کے مشترکہ معاہدے کو نافذالعمل بنائے۔ اس سلسلے میں IAEA ایران کے بیانات کو تعاون کا ایک بڑا عہد سمجھ رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے نیوکلیئر واچ ڈاگ بورڈ آف گورنرز نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نومبر 2022ء کی قرارداد کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کا فیصلہ کرے۔ اس سلسلے میں 2019ء سے تہران اور بین الا قوامی ایٹمی توانائی کے درمیان متعدد مذاکرات ہو چُکے ہیں۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس نے ملک کے جوہری پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی کے حوالے سے کہا،” اگر نیوکلیئر واچ ڈاگ بورڈ آف گورنرز نے ایران کے خلاف کوئی قرارداد منظورکی تو ایران رد عمل ظاہر کرے گا۔‘‘
یاد رہے کہ 35 ملکی بورڈ آف گورنرز کا اجلاس سہ ماہی ہوتا ہے اور یہ IAEA کے دو اعلیٰ پالیسی ساز اداروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ادارے کا اجلاس سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔