خرطوم (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/رائٹرز/اے ایف پی) سوڈان کے ایک گاوں پر آر ایس ایف کے حملے میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ماہرین کے مطابق فوج اور نیم فوجی دستے کے درمیان جنگ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے سوڈان دنیا کے لیے ایک ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
ایک جمہوریت حامی گروپ کا کہنا ہے کہ وسطی سوڈان کی گزیرا ریاست کے ایک گاؤں پر نیم فوجی دستے(آر ایس ایف) کے حملے میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ گروپ کے مطابق جنرل عبدالفتح البرہان کی قیادت والی سوڈانی فوج اور ان کے سابق نائب محمد حمدان دقلو کی قیادت والے نیم فوجی دستے آر ایس ایف کے درمیان تنازع کے آغاز سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً 90 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔
جمہوریت حامی گروپ مدنی مزاحمتی کمیٹی نے بتایا کہ آر ایس ایف نے گزیرا ریاست میں وعدالنورہ گاوں میں دو مرتبہ حملے کیے۔ ان حملوں میں 104 افراد ہلاک ہو گئے۔
خیال رہے کہ برہان کی قیادت والی سوڈانی فوج اور دقلو کی قیادت والی آر ایس ایف کے درمیان گزشتہ سال اپریل سے لڑائی ہورہی ہے۔ یہ تنازع نیم فوجی دستوں کے ملک کے مسلح افواج میں منصوبہ بندانضمام کے مسئلے پر شروع ہوا تھا۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے خبر دار کیا تھا کہ اس تنازع کی وجہ سے پچاس لاکھ افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔
‘سوڈان کا تنازعہ ایک ٹائم بم ہے’
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرقی افریقہ کے اس ملک میں جاری جنگ کو عالمی برادری”نظر انداز” کررہی ہے، جس نے سوڈان کو بقیہ دنیا کے لیے ایک ایسے ٹائم بم میں تبدیل کردیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
سوڈان کے امور کے ماہر البشیر ادریس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی حکومتیں خرطوم کے حوالے سے “ناکام” ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “اس جنگ زدہ اور دنیا کے سب سے بڑے داخلی نقل مکانی کے بحران والے ملک میں اگر ہجرت میں اضافہ ہوتا ہے تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے۔”
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک پندرہ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں دیگر بے گھر ہو چکے ہیں۔
ادریس کا کہنا تھا کہ”یہ ممکن نہیں کہ آر ایس ایف صرف اپنا دفاع کررہی ہے بلکہ اپریل 2023 میں انہوں نے ہی حملہ شروع کیا تھا اس لیے وہ حملہ آور ہیں۔”
سعودی عرب نے دونوں فریقین کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ ادریس اس کے لیے آر ایس ایف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ادریس نے کہا،”آر ایس ایف اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہی ہے، جس میں شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا اور اہم انفرا اسٹرکچر پر حملے نہ کرنا شامل تھا۔”
انہوں نے کہا،”آر ایس ایف اپنے بائیں ہاتھ کا استعمال امن مذاکرات کے لیے کرتی ہے لیکن انہوں نے دائیں ہاتھ میں رائفل پکڑ رکھی ہے تاکہ دہشت گردی اور شہروں، قصبات اور گاوں پر حملے کے اپنے مقاصد پورا کرسکیں۔ جیسا کہ اس ہفتے ہم نے دیکھا بھی۔”
سوڈان کے امور کے ماہر البشیر ادریس کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برداری نے اس تنازعے پر اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کے پاس آر ایس ایف پر لگام لگاکر سوڈان کی مدد کرنے کا ایک موقع تھا لیکن اس نے یہ موقع گنوا دیا۔ اب سوڈان کی قومی فوج مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے بجائے روسی ہتھیاروں اور ایرانی ڈرونز کی مدد سے مکمل فوجی فتح حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔