اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی سطح پر ایک فائر وال انسٹال کرنے کے منصوبے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لیے حکومت قومی سطح پر ایک فائر وال نصب کرنے جا رہی ہے جس کے ذریعے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے فیس بک، ایکس(سابق ٹوئٹر)، یو ٹیوب اور دیگر سائٹس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔
اس فائر وال کی مدد سے ’ریاست مخالف پروپیگنڈا‘ کرنے والے اکاؤنٹس کے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز فوری طور پر حکومت کو دست یاب ہوں گے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
ایک اعلیٰ سطح کے حکومتی ذریعے کے مطابق یہ فائر وال سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرز پر کام کرے گا جہاں ریاست کسی بھی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرتی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ فائر وال کا یہ نظام چین سے لیا گیا ہے۔ اس کے لیے کتنی ادائیگی کی گئی ہے اور یہ کس طرح کام کرے گا؟ اس بارے میں فی الحال معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔
اس معاملے پر وائس آف امریکہ نے مختلف حکام سے رابطہ کیا لیکن معاملے کی سنگینی اور حساسیت کے باعث کسی نے بھی اس بارے میں بات نہیں کی۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے بھی اس بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ چند روز قبل وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کا عندیہ دیا تھا۔
پاکستانی فوج بھی سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مبینہ پروپیگنڈے پر تنقید کر چکی ہے اور حال ہی میں فوج کی طرف سے اسے “ڈیجیٹل دہشت گردی” کہا گیا تھا۔
انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور بنیادی حقوق سے متعلق کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اظہارِ رائے پر پابندیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ای کامرس اور دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
فائر وال کام کیسے کرتی ہے؟
فائر وال سسٹم بنیادی طور پر انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگایا جاتا ہے جہاں سے انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے۔ اس کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے۔
اس فائر وال کی مدد سے ناپسندیدہ ویب سائٹس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مخصوص مواد کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی مواد کو فائر وال کی مدد سے بلاک کیا جاسکتا ہے۔
اس نظام کی مدد سے کسی مواد کے ماخذ (اوریجن) یعنی جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہو، اس بارے میں بھی فوری مدد مل سکتی ہے اور آئی پی ایڈریس سامنے آنے کے بعد مواد کو بنانے والے کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ‘بولو’ کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ فائر وال سسٹم کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فریحہ عزیز نے کہا کہ اب چوں کہ زیادہ تر انٹرنیٹ ٹریفک انکرپٹڈ ہوتی ہے تو اگر ایسا اقدام کیا جاتا ہے تو پہلے انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنا پڑے گا جس سے ای کامرس بری طرح متاثر ہو گی اور انٹرنیٹ بینکنگ پر بھی اثر پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اور پرائیویسی بھی بے حد کمزور ہو جائے گی۔
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ ماضی میں ‘پی ٹی سی ایل’ اور دیگر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز کے پاس فائر وال لگائی گئی تھی اور اب گیٹ ویز پر یہ فائر وال نصب کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آ رہا ہے۔ قانون کے مطابق انٹرنیٹ کو ہینڈل کرنے کا اختیار ‘پی ٹی اے’ کے پاس ہے لیکن کیا ان کے پاس فائر وال خریدنے کا اور اسے انسٹال کرنے کا اختیار بھی ہے یا نہیں؟
فریحہ عزیز نے کہا کہ انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈی کرپٹ کرنے کی صورت میں بینکس بھی خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں کیوں کہ ان بینکس کی آن لائن سروسز استعمال کرتے ہوئے پاس ورڈ اس فائر وال کو کنٹرول کرنے والے کے پاس ظاہر ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈی کرپٹ ہونے کے بعد کسی ہیکر کے لیے بھی اس سائیٹ تک رسائی زیادہ مشکل نہیں ہو گی۔
ان کے بقول ایسی صورت میں خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایف آئی اے امیگریشن ہو جہاں آپ نے ملک سے باہر جانا ہے تو بھی دستاویزات دکھانے ہوتے ہیں اور ملک کے اندر آنا ہے تو بھی دستاویزات دکھانے اور چیکنگ کرانی پڑتی ہے۔ اس فائر وال کے بعد باہر جانے والی اور ملک کے اندر آنے والی انٹرنیٹ ٹریفک کو مانیٹر کیا جا سکے گا۔
فریحہ عزیز کے مطابق پاکستان میں ایک عرصے سے چین کے ماڈل کی طرز پر انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اب بھی چین اور سعودی عرب ماڈل پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن اُن معاشروں اور ہمارے ملک میں بہت زیادہ فرق ہے۔
ان کے بقول یہ دونوں ممالک معاشی طور پر خود مختار ہیں اور اپنے عوام کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو معاشی خود مختاری ہے اور نہ ہی عوام اس طرح کے کنٹرول کو قبول کریں گے۔ لہٰذا ان کے خیال میں یہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندیاں
پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں اور حکومت کسی بھی موقع پر ملک بھر میں انٹرنیٹ تک صارفین کی رسائی کو بند کرتی آئی ہے۔ خاص طور پر موبائل فون کمپنیز کے ڈیٹا کو بند کرنا ایک عام سے بات بن چکی ہے۔
آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی موبائل فون صارفین انٹرنیٹ سے محروم رہے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ مختلف ویب سائٹس کو بھی پاکستان میں بند کیا جاتا رہا ہے۔ سال 2008 میں ایک متنازع فلم کی وجہ سے پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی عائد کی گئی جو طویل عرصے کے بعد ہٹا دی گئی تھی۔
اس وقت بھی ملک میں سماجی رابطے کی سائٹ ‘ایکس’ پر لگ بھگ چار ماہ سے پابندی ہے اور حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ریاست مخالف مواد ریگولیٹ کرنے میں ایکس کی طرف سے حکومت پاکستان کی مدد نہیں کی گئی۔
یہی نہیں بلکہ مختلف اخبارات اور خبروں سے متعلق ویب سائٹس کو بھی پاکستان میں بلاک کیا جا چکا ہے۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کی ویب سائٹس بھی ایک طویل عرصے تک ملک میں بند رہی تھی جب کہ پشتو زبان کی ‘ڈیوا’ کی ویب سائٹس بھی پاکستان میں بلاک کی جا چکی ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ماضی میں بھی ایسی پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر کنٹرول کے لیے یہ فائر وال انسٹال کی جا رہی ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو ‘پیمرا’ کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا جس میں ان کا ساتھ مختلف ریاستی ادارے بھی دے رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر صحافی اپنی وہ خبر جو وہ اپنے ٹی وی یا اخبار میں نہیں دے سکتے تھے، وی لاگ کے ذریعے دے رہے تھے۔ لیکن اب یہ بھی بند ہونے جا رہا ہے۔
ہارون بلوچ نے کہا کہ قومی سطح پر لگائی جانے والی فائر وال الفاظ کو مانیٹر کرے گی اور بعض مخصوص الفاط جب بھی سامنے آئیں گے اس مواد کو بلاک کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ حکومت اور اس نظام کو کنٹرول کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کس چیز کو بلاک کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے ایک بات لازم ہے کہ آزادی اظہارِ رائے پر پابندیوں میں مزید اضافہ ہو گا جس کے ہم سخت خلاف ہیں۔
کیا فائر وال سے مقاصد پورے ہو سکیں گے؟
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ پر فائر وال نصب کیے جانے سے بھی کچھ خاص فوائد حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت چین میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کئی فائر وال نصب کیے گئے ہیں لیکن ان سے بچنے کے لیے صارفین مختلف ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین کے بقول اگرچہ حکومت کی طرف سے مختلف وی پی این بند کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بعض وی پی این استعمال کیے جا سکتے ہے۔
ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ وی پی این استعمال کے حوالے سے بھی عوام کو مشکل پیش آئے گی کیوں کہ جیسے ہی کوئی وی پی این استعمال کرے گا تو اس فائر وال کی مدد سے حکام کو اس آئی پی ایڈریس کے بارے میں معلومات مل جائیں گی کہ یہ سسٹم وی پی این استعمال کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس وی پی این کو بلاک کرنے یا اُس صارف پر دباؤ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی ‘ایکس’ پر پابندی ہے اور اب اس کے ذریعے چین کی طرح فیس بک یا یوٹیوب کو بھی بند یا کنٹرول کیا جاسکے گا۔
‘اس اقدام سے ڈس انفارمیشن نہیں رک سکتی’
غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے بانی اسد بیگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام معاملہ مشکوک نظر آ رہا ہے اور اس کی بنیاد سیاست ہی ہے۔ سیاسی کنٹرول کے لیے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے جس میں شفافیت کی بہت زیادہ کمی نظر آرہی ہے۔
اسد بیگ نے کہا کہ ڈس انفارمیشن یعنی غلط معلومات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ بھی تسلیم کر چکی ہے۔ لیکن ڈس انفارمیشن کو روکنے کا یہ طریقہ بہت غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اور اس سے پہلے کی حکومتوں میں اس ڈس انفارمیشن کو روکنے کے لیے سنجیدگی نظر نہیں آئی۔ اس ڈس انفارمیشن کو روکنے کا واحد طریقہ تعلیم ہے لیکن اس کی کوشش نہیں کی جا رہی۔
اسد بیگ کے مطابق ماضی میں بھی ڈس انفارمیشن کو روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر غلط معلومات کا پھیلاؤ روکنے کے لیے آگاہی کے دینے کے بجائے صرف دباؤ ڈال کر نت نئی قانون سازی کے ذریعے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک سیاسی اقدام ہے۔