اسرائیل اور حماس بچوں کےحقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والوں میں شامل، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) اقوام متحدہ کے لئے اسرائیل کے ایلچی جیلاد ایردن نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کی فوج کو 2023 میں بچوں کےحقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والوں کی عالمی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو “شرمناک” قراردیا۔

ایک سفارتی ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کو بھی اس فہرست میں رکھا جائے گا۔

ایردن نے کہا کہ انہیں جمعہ کو اس فیصلے کے بارے میں باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا ہے۔ یہ عالمی فہرست بچوں اور مسلح تصادم سے متعلق ایک رپورٹ میں شامل کی گئی ہے جسے گوتریس 14 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کررہے ہیں۔

اس رپورٹ میں چھے خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا ہے، قتل اور معذوری، جنسی تشدد، اغوا، بچوں کی بھرتی اور استعمال، امداد تک رسائی سے انکار اور اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اسرائیل، حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کو کن خلاف ورزیوں کے لیے فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ اس فیصلے کے”اقوام متحدہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پر اثرات مرتب ہوں گے۔”

اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ حماس کے زیر اقتدار غزہ میں آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے دوران کم از کم 7,797 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے شناخت شدہ لاشوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، جسے اقوام متحدہ قابل اعتماد سمجھتی ہے، غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے 15 ہزار بچے مارے گئے ہیں۔

اسرائیل کی نیشنل کونسل فار دی چائلڈ کے مطابق، 7 اکتوبر کو حماس کے زیر قیادت حملے میں 38 بچے ہلاک ہوئے تھے ، جس نے جنگ کو جنم دیا اور 7 اکتوبر کو غزہ میں یرغمال بنائے گئے 250 افراد میں سے 42 بچے تھے۔ دو بچوں کے علاوہ باقی سب کو رہا کر دیا گیا ہے۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس جمعرات کے روز غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول پر اس اسرائیلی حملے کی مذمت کی جس میں 37 لوگ ہلاک ہو ئے تھے۔ جن میں مبینہ طور پر بچے بھی شامل تھے۔

اسرائیلی فوج کا الزام ہے کہ اسکول میں غزہ کے ایک ہسپتال کی طرز پر حماس کا ایک کمپاؤنڈ موجود تھا۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ “یہ اس قیمت کی ایک اور خوفناک مثال ہے جو عام شہری ادا کر رہے ہیں، جو صرف زندہ رہنے کی کوشش کرنے والے فلسطینی مرد، خواتین اور بچے ادا کر رہے ہیں۔ ”

دوجارک نے کہا کہ “وہ ( گوتریس ) یقیناً اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ غزہ میں جو کچھ ہوا ہے اس کا احتساب ہونا چاہیے۔”

اسرائیلی فوج نے جس اسکول کو نشانہ بنایا وہ اقوامِ متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے ‘یو این آر ڈبلیو’ کے زیرِ انتظام چل رہا تھا اور غزہ جنگ کے متاثرین وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے اسکول پر حملہ کیا جس کے بارے میں اس نے فوری طور پر ثبوت پیش کیے بغیر دعویٰ کیا کہ حماس اور اسلامی جہاد اپنی کارروائیوں کے لیے اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ادارے کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے ہی اس کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول پناہ گاہوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کے اسکول پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ معاونین تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے منصوبے پر پیش رفت کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں