لندن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) بین الاقوامی جہاز رانی کے شعبے میں سلامتی امور پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق گزشتہ رات یہ میزائل حملے دو کارگو بحری جہازوں پر کیے گئے۔ یمن سے فائر کیے گئے ان میزائلوں کے نتیجے میں ایک بحری جہاز پر آگ بھی لگ گئی۔
برطانوی دارالحکومت لندن سے اتوار نو جون کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق یمنی سرزمین سے بظاہر حوثی باغیوں کی طرف سے فائر کیے گئے ان دو میزائلوں سے جن بین الاقوامی مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، ان میں سے ایک اینٹی گوا کے پرچم والا کارگو شپ تھا۔
انٹرنیشنل میری ٹائم سکیورٹی فرم ایمبری کے مطابق ان میزائل حملوں کے باعث دونوں بحری جہازوں کے عملے کا کوئی رکن زخمی تو نہیں ہوا تاہم ایک بحری جہاز کو میزائل لگنے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔
ایمبری کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اینٹی گوا کے پرچم والا مال بردار بحری جہاز یمن کے ساحلی علاقے سے کچھ دور خلیج عدن کے پانیوں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ ”ہفتہ آٹھ جون کو رات گئے اس میزائل حملے کے بعد اس بحری جہاز پر آگ لگ گئی، تاہم یہ آگ بجھا دی گئی اور عملے کا کوئی رکن زخمی نہیں ہوا۔‘‘
ادھر برطانوی بحریہ کے زیر انتظام کام کرنے والی یو کے میری ٹائم ٹریڈ آپریشنز (UKMTO) نامی تنظیم نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ رات یمنی سرزمین سے خلیج عدن کے علاقے میں ہی ایک اور بحری جہاز پر بھی ایک میزائل فائر کیا گیا۔
یو کے ایم ٹی او نامی ادارے نے بتایا کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر نہ لگا اور سمندر میں جا گرا۔ تاہم اسی وقت اس سمندری خطے میں متعدد چھوٹی کشتیاں ایسی بھی تھیں، جن سے اس بحری جہاز پر فائرنگ کی گئی۔ اس واقعے میں بھی کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
حوثی باغیوں کے ڈرون اور میزائل حملے
خلیج عدن کے علاقے میں مال بردار بحری جہازوں پر میزائل حملوں کے گزشتہ رات پیش آنے والے واقعات اپنی نوعیت کے کوئی اولین واقعات نہیں تھے۔ یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کی طرف سے گزشتہ مہینوں کے دوران ایسے درجنوں حملے دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
حوثی باغی مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ اپنی اس سوچ کے تحت بناتے ہیں کہ غزہ پٹی میں جاری حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ میں وہ حماس کی عسکری حمایت میں اسرائیلی ملکیتی یا اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو ہدف بنائیں۔
اپنے ان حملوں کے لیے حوثی باغی میزائلوں کے علاوہ مسلح ڈرونز بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کی ان کارروائیوں کے باعث خلیج عدن اور قرن افریقہ کے قریبی سمندری علاقے سے گزرنا بین الاقوامی تجارتی مال برداری کرنے والے بحری جہازوں کے لیے انتہائی پرخطر ہو چکا ہے۔
حوثی باغیوں کے انہی حملوں ہی کا نتیجہ ہے کہ اب تجارتی جہاز رانی کے لیے بحیرہ احمر سے گزرنے کے بجائے کارگو بحری جہاز بہت طویل راستہ اپناتے ہوئے جنوبی افریقہ کے قریبی سمندری علاقے سے ہو کر گزرتے ہیں۔
اس وجہ سے انٹرنیشنل شپنگ اور انشورنس کی مد میں اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں اور بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن کا راستہ غیر محفوط ہو جانے سے قبل انٹرنیشنل کمرشل شپنگ کا تقریباﹰ 12 فیصد حصہ اسی راستے سے عمل میں آتا تھا۔