اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت کے مطابق پاکستان اور ایران سے افغان مہاجرین کی مسلسل آمد کا سلسلہ جاری ہے اور یومیہ لگ بھگ دو ہزار افراد واپس اپنے ملک آ رہے ہیں۔
افغان طالبان نے دونوں ممالک سے واپس آنے والے مہاجرین کی ان کے آبائی اضلاع میں دوبارہ آباد کاری اور معاونت کے لیے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
کمیشن کے ترجمان قاری یوسف احمدی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دونوں پڑوسی ممالک نے 2024 میں لگ بھگ چار لاکھ افغان مہاجرین کو زبردستی ملک بدر کرکے افغانستان بھیجا ہے۔ ان کے بقول اس ملک بدری میں 75 فیصد کے لیے پاکستان ذمے دار ہے۔
قاری یوسف احمدی نے دعویٰ کیا کہ واپس آنے والوں کی بھرپور مدد کی جا رہی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے اضافی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے پیر کو متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی اور معاشی حالات کی خرابی کے سبب چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب طالبان کے اقتدار کو تین برس مکمل ہونے والے ہیں جب کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد غیر ملکی امداد بھی انتہائی کم ہو چکی ہے۔
طالبان پاکستان اور ایران سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کی مذمت کرتے رہے ہیں اور ان کی جانب سے یہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی قانون کے تحت بہتر ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور ایران کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ صرف ان افغان مہاجرین کو واپس بھیج رہے ہیں جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں اور وہ ان قوانین پر عمل کر رہے ہیں جن پر دنیا کے دیگر ممالک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے عمل کرتے ہیں۔
اسلام آباد نے ابتدا میں باضابطہ طور پر ان غیر ملکی افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا جن کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے قانونی دستاویزات نہیں تھیں ان میں افغان مہاجرین بھی شامل تھے۔
اکتوبر 2023 میں پاکستان میں نگراں حکومت کے دور میں یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس کا الزام غیر قانونی تارکینِ وطن پر عائد کیا جا رہا تھا۔
اس دوران پاکستان سے لگ بھگ چھ لاکھ افغان مہاجرین واپس اپنے ملک گئے ہیں جن کے بارے میں پاکستانی حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان میں 95 فیصد رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک گئے ہیں۔
پاکستانی حکام مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے کریک ڈاؤن میں ان 14 لاکھ افغان مہاجرین کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا جو قانونی طریقے سے مہاجرین کی حیثیت سے پاکستان میں آباد ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق جنوری 2023 کے بعد سے پاکستان اور ایران سے لگ بھگ 15 لاکھ افغان مہاجرین اپنے ملک واپس گئے ہیں جن میں رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے مہاجرین بھی شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی آدھی سے زیادہ یعنی دو کروڑ 70 لاکھ آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔ اس آبادی میں 92 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں نے 2024 میں ملک میں امدادی سرگرمیوں کے لیے ایک ارب ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی۔ لیکن اس اپیل پر رواں برس کے چھ ماہ میں صرف 20 فیصد امداد ہی جمع ہو سکی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں لگ بھگ 48 فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ناقدین کے مطابق افغانستان کے لیے عطیات میں کمی کی وجوہات میں طالبان کے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ خواتین کے روز گار اور لڑکیوں کے تعلیم کے حصول پر پابندی بھی شامل ہے۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے چھٹی کلاس سے آگے لڑکیوں کے تعلیم کے حصول اور مختلف سرکاری اور نجی شعبہ جاری میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔