ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد ایک ’روحانی شخصیت‘ کا جنم: ابراہیم رئیسی کی شبیہ راتوں رات کیسے بدل گئی؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کی خبریں اب تھم چُکی ہیں اور شاید اب تک ان کے بدقسمت ہیلی کاپٹر کا ملبہ بھی اُٹھا لیا گیا ہو۔

مگر گذشتہ دنوں کے بیانات اور تحریروں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے نے ’ایک نئے ابراہیم رئیسی‘ کو جنم دیا ہے جن کے عدالتی اور سیاسی ریکارڈ کی سلیٹ صاف کرنے کے بعد اس پر دوبارہ سے لکھا گیا ہے۔

ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے تھے۔ تاہم متعدد ایرانی اور غیر ملکی انسانی حقوق کے علمبردار انھیں 1980 کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر ہونے والے عدالتی قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

لیکن اب ایسا لگتا ہے جیسے ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے بعد ابراہیم رئیسی کی تمام عدالتی اور سیاسی خامیاں فراموش کر دی گئی ہوں۔

اب وہ اپنے مداحوں کی نظروں میں ایک ’روحانی‘ اور ’معصوم‘ شخصیت ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے اہلِ خانہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں ان کے نام اور عہدے کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں ابراہیم رئیسی کی موت کے حوالے سے شیعیوں کے پہلے اور بارہویں اماموں سے روایتیں شائع کی گئی ہیں اور یہ تعریفیں اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں کہ ان میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ ’حضرت عیسیٰ کی طرح ابراہیم رئیسی بھی واپس آئیں گے اور وہ شہیدوں کا لشکر لے کر واپس آئیں گے۔‘

ابراہیم رئیسی کے بارے میں جاری کیے گئے حکومتی عہدیداروں کے بیانات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے چاہنے والوں اور حامیوں نے انھیں ایک بہت بلند مقام پر پہنچا دیا ہے اور یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سابق ایرانی صدر کی حیثیت مستقبل میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے مقام سے بھی زیادہ بڑی ہو سکتی ہے۔

آج کل ابراہیم رئیسی کے ریکارڈ اور ماضی کی کارکردگی کو اس طرح دیکھا جا رہا ہے جیسے ان پر کی گئی تنقید کوئی جرم ہو اور اس پر سزا بھی ہو سکتی ہے۔

آیت اللہ خمینی کے بارے میں جو سینکڑوں کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں ’امام کی برکت‘ نامی کتاب بھی شامل ہے، جس میں ’امام کے جھوٹے پانی سے شفا‘، ’بیماروں کے لیے شفا‘، ’امام کے دستِ مبارک سے شفا‘ جیسی چیزوں کا ذکر ہے۔

تاہم فی الحال ابراہیم رئیسی کی یاد میں ’ورک اینڈ تھاٹس پبلشنگ انسٹی ٹیوٹ‘ جیسے کسی ادارے کو قائم کیے جانے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔

لیکن اتنی مقدس تعریفیں کہاں سے آ رہی ہے؟ اور علما ان کے لیے ایسے القابات، جنھیں عام طور پر بدعت قرار دیا جاتا ہے، کے بارے میں خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں؟

ابراہیم رئیسی کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے؟

جب تک ابراہیم رئیسی زندہ تھے حکومتی دستاویزات کے مطابق بنیاد پرستوں پر مشتمل ایک گروہ ان کے منصوبوں اور کارکردگی پر کڑی تنقید کیا کرتا تھا۔ یہی نہیں ان کی معاشی پالیسیوں پر ایرانی علما بھی ان کے خلاف آواز اُٹھا رہے تھے۔

ابرائیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے سے چند دن پہلے قُم گئے تھے اور متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں انھیں ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔

جس دن ابراہیم رئیسی کی موت کی خبر شائع ہوئی، حکام اور سرکاری ذرائع ابلاغ نے بڑے پیمانے پر ابراہیم رئیسی کی کامیابیوں کی تعریف کی اور ان پر ہونے والی تنقید پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔

تہران میونسپیلیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ میں 1 کروڑ 20 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ ایک صوبے کے گورنر نے دعویٰ کیا کہ دنیا کی ڈھائی ارب آبادی نے ابراہیم رئیسی کا سوگ منایا۔

ابراہیم رئیسی کو ناخواندہ قرار دینے والے ناقدین کو جواب دینے کے لیے تہران میونسپیلیٹی نے ایک پوسٹر بھی شائع کیا جس میں لکھا تھا: ’آپ ناخواندہ نہیں تھے۔‘

ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ابراہیم رئیسی کی ذاتی خصوصیات کو ’روحانی‘ اور ’صوفیانہ‘ صفات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسی باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ ’ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھی جنت میں داخل ہوں گے، جہاں ان کا استقبال پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کریں گے۔‘

ایسے میڈیا پروپیگنڈے اور پوسٹرز پر دنیا بھر سے تنقید بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ایسی شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہونے والے پائلٹس کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور کوئی بھی ان کا نام کیوں نہیں لے رہا؟

ایرانی حکومت کے حامیوں نے ابراہیم رئیسی کی زندگی کے بارے میں ایسی باتیں کیں جو اکثر صرف شیعہ اماموں کے بارے میں کی جاتی تھیں، جیسے کہ ابراہیم رئیسی کو ایک انتہائی معصوم اور جنتی شخص قراد دیا جا رہا ہے۔

آستانہ قدسِ رضویہ کے سربراہ احمد مراوی نے بھی کیمروں کے سامنے اسی قسم کا ایک دعویٰ کیا۔ انھوں نے کہا: ’امام علی نے رئیسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا‘ اور ’ان سے کہا کہ وہ لوگوں کی فلاح کے لیے کام کریں اور اس طرح ان (امام علی) کی مدد اور حمایت رئیسی کے ساتھ ہو گی۔‘

5 جون کو نیشاپور کے گورنر مہدی ڈوندے نے دعویٰ کیا کہ نیشاپور کے ایک شخص ’جس کا سلسلہ نصب امام مہدی سے ملتا ہے، نے امام مہدی کو ہیلی کاپٹر کے حادثے والے راستے پر پریشانی میں چلتے دیکھا۔ لیکن اس موقع پر امام نے کہا کہ وہ یہاں اپنا معجزہ نہیں دکھائیں گے۔‘

مذہبی مفکر اور محقق یاسر میردامادی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ابراہیم رئیسی کو ’مقدس سمجھنا جانا‘ معاشرے میں بحران کی نشاندہی کرتا ہے اور ابراہیم رئیسی کے لیے یہ تقدس ختم ہونے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے۔ ان کی ہلاکت کے ایک ماہ بعد اُن کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد انتخابات کی جانب مائل ہو چُکی ہے۔‘

ایران میں آیت اللہ خمینی کو حاصل مقدس مرتبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ احترام دو دہائیوں بھی قائم نہیں رہا اور کم ہوتا گیا، میرا نہیں خیال کہ آج سے 100 سال بعد کسی کو خمینی کا نام بھی یاد ہو گا۔‘

’امامِ زمانہ کے ساتھ ملاقات‘

بڑی شخصیات کی موت کے بعد ان کا مذہبی درجہ بڑھانے کے لیے شیعہ اماموں کے ناموں کا استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن جس انداز میں ابراہیم رئیسی اور قاسم سلیمانی کی ہلاکت ہوئی، اس نے لوگوں کو موقع فراہم کردیا کہ وہ مزید کہانیاں بنائیں۔

حالیہ دنوں میں ایران میں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایرانی حکومت اور آیت اللہ خامنہ ای کے قریب سمجھے جانے والے مشہور مدرس منصور آرزی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ایک بزرگ نے خواب دیکھا جس میں ’قاسم سلیمانی، حضرت فاطمہ زہرہ (پیغمبرِ اسلام کی بیٹی اور امام علی کی اہلیہ) کے مشیر ہیں۔‘

انھوں نے لفظ ’مشیر‘ کو تین مرتبہ دہرایا۔

حالیہ برسوں میں جن سرکاری حکام نے غائب شیعہ اماموں سے یادیں یا الفاظ منسوب کیے ہیں ان میں تہران میں نمازِ جمعہ پڑھانے والے عبوری امام اور امام خمینی مدرسہ کے سربراہ کاظم صدیقی بھی شامل ہیں۔

صدیقی نے بارہا ایسے الفاظ کہے ہیں جیسے ’امام مہدی غمگین ہیں‘ (جون 2022) اور ’امام زمان نے فرمایا کہ امام زادہ مجھے لوگوں کے خطوط بھیجتے ہیں اور میں انھیں پڑھ کر ان پر دستخط کرتا ہوں (اپریل 2018)۔‘

اس قسم کے دعوؤں کی تکرار کے بارے میں سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کاظم صدیقی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں جیسے ’وہ روئے زمین پر امامِ زمانہ کے دفتر کے انچارج ہوں‘۔

شعیوں کے 12ویں امام سے باتیں منسوب کرنے کے علاوہ کاظم صدیقی نے کئی شخصیات کے ’فضائل و معجزات‘ کے بارے میں بھی بیانات دیے ہیں۔ ان میں سے ایک معاملے پر تو انھیں معافی بھی مانگنا پڑی تھی۔

یہ معافی انھیں ایران کے موجودہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی عالم مصباح یزیدی کی وفات کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان کے سبب مانگنی پڑی تھی۔

مثلاً جنوری 2019 میں انھوں نے کہا تھا کہ ’مصباح یزدی نے نہاتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں، ایک مہربان نظر ڈالی اور دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔‘

اس معاملے پر رہبری شوریٰ کے سابق رکن ابوالقاسم خزالی کے بڑے بیٹے محسن خزالی نے کہا تھا کہ ’کاظم صدیقی امام مہدی سے منسوب کر کے جھوٹ بولتے ہیں اور اس لیے انھیں شوریٰ کے اجلاسوں میں داخلے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔‘

تاہم اگر ہم اگر ماضی کو دیکھیں تو مصباح یزدی نے خود بھی 2004 کے صدارتی انتخابات کے دوران ایسا ہی ایک بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امام مہدی محمود احمدی نژاد کی فتح کے لیے دعاگو ہیں‘۔

محمود احمدی نژاد کے دور میں ایران کے بنیاد پرست حلقے ان کی حکومت کو امام مہدی کی حکومت اور اس صدی کا معجزہ تک سمجھتے تھے۔

اکتوبر 2004 میں اقوام متحدہ کے اپنے پہلے دورے کے دوران محمود احمدی نژاد نے کہا تھا کہ وہ ’نور کے ہالے میں گھرے ہوئے ہیں۔‘

محمود احمدی نژاد کی حکومت میں امام مہدی کے ساتھ نسبت کا دعویٰ بہت سنا گیا، جیسا کہ وکی لیکس کی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے: احمدی نژاد، اسفندیار رحیم مشائی (اس وقت صدر کے دفتر کے انچارج) پر اس لیے انحصار کرتے ہیں کیونکہ صدر کا دفتر امام وقت سے براہ راست رابطے میں ہے۔

ان خوابوں اور شعیہ اماموں سے منسوب اقتباسات کی تصدیق کے حوالے سے عام طور پر کوئی وضاحت جاری نہیں کی جاتی، نہ ان کی صداقت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور بارہ شیعہ اماموں میں سے ہر مرتبہ صرف دو یا تین کا حوالہ ہی کیوں دیا جاتا ہے، اس کی وجہ بھی کوئی نہیں جانتا۔

چند سال قبل ساواک (سنہ 1957-1979 تک ایران کی خفیہ پولیس) کے سیکورٹی ایڈوائزر کے سربراہ کی ایک ویڈیو شائع ہوئی، ویڈیو میں انقلابِ ایران کے آغاز پر ایک پریس کانفرنس میں وہ ’مہان‘ کے نام سے ایک منصوبے کا ذکر کر رہے تھے جسے رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے آخری سالوں (غلام رضا ازہری کی فوجی حکومت) میں نافذ کیا گیا تھا۔

ویڈیو میں وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے اسرائیل کے مشورے پر لوگوں کے ’مذہبی عقائد کا مذاق اُڑانے‘ کے لیے ایک نفسیاتی آپریشن شروع کیا تھا۔

انھوں نے وہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس آپریشن کے لیے دو کروڑ تومان مختص کیے گئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ساواک کے افسر کا بیان جبری طور پر لیا گیا تھا۔

ساواک کے افسر اس ویڈیو میں آگے جا کر کہہ رہے تھے کہ یہ بجٹ ’روحانی شخصیات‘ کو مرعوب کرنے کے لیے مختص کیا گیا تھا تاکہ اشتہار چلائے جا سکیں کہ خواب میں ’امام رضا (شیعوں کے آٹھویں امام) آئے اور انھوں نے ہدایت دی کہ لوگ رضا شاہ پہلوی کی مدد کریں تاکہ وہ ایران میں رہ سکیں۔‘

اس وقت ایک اور افواہ بھی سننے میں آئی تھی کہ ’آیت اللہ خمینی کی شبیہ چاند میں نظر آئی ہے۔‘

خامنہ ای اور ’خدا کی آواز‘

قاسم سلیمانی کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو ’خدا کا کلام‘ قرار دینے پر بھی تنازع دیکھنے میں آیا تھا۔

قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر کی گئی اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ: ’میں سیڑھیوں پر بیٹھا تھا اور بہت گرمجوش و دلچسپ گفتگو ہوئی، میں نے اس سے پہلے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا تھا۔ قادر مطلق یعنی خدا اس طرح بولتا ہے مگر درحقیقت یہ میری زبان تھی، یہ خدا کا کلام تھا۔ یہ ایک بہت ہی عجیب ملاقات تھی اور اس کے بہت گہرے اثرات تھے۔‘

ایرانی رہبرِ اعلیٰ کے ان الفاظ پر بہت سخت ردِعمل سامنے آیا اور آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر سے وابستہ میگزین ’خطِ حزب اللہ‘ کو اس بارے میں وضاحت شائع کرنا پڑی۔

اس وضاحت میں ناقدین کو ’انقلاب کا مخالف‘ قرار دیا گیا اور لکھا گیا کہ ’عوام کو متحد رکھنے والی شخصیت کے بارے میں اس طرح کی تشریحات عجیب اور ممکن تو ہیں، مگر بدقسمتی سے جن لوگوں نے کبھی توحید کی خوشبو تک نہیں سونگھی اور نہ ہی اس کی مٹھاس کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ہی ناجائز الزامات لگاتے ہیں۔‘

بارہویں امام کے ساتھ آیت اللہ علی خامنہ ای کے روحانی تعلق اور ’امام مہدی کی علی خامنہ ای کی طرف توجہ‘ کے بارے میں کچھ باتیں ایرانی رہبرِ اعلیِ نے خود بھی کہی ہیں جو کہ ان کی کتاب ’پانی، آئینہ، سورج‘ میں بھی موجود ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے ایک مرتبہ اس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’بعض اوقات میرے لیے ملک کی انتظامیہ کے مسائل کو حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور جب کوئی راستہ نہیں ملتا تو ہم قم کی طرف دیکھتے ہیں اور مسجد جمکران جاتے ہیں۔‘

’امام مہدی کے ساتھ راز و نیاز کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے غیب سے کوئی ہاتھ میری رہنمائی کر رہا ہے اور میں وہاں کسی فیصلے پر پہنچ جاتا ہوں اور اس طرح مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔‘

اس کے علاوہ ایرانی حکومت کے عہدیدار اور علما بھی امام مہدی کی رہبِر اعلیٰ کی طرف ’توجہ‘ اور ان کے تعلق کے بارے میں بیانات دیتے آئے ہیں۔

کاظم صدیقی نے 18 مئی 2019 کو ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں اعلان کیا کہ ’اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما امام مہدی کے ’لباس‘ سے ہیں (یعنی ان سے نسبت رکھتے ہیں)۔‘

اس سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ ’عرفات میں امام مہدی کی بابرکت موجودگی کے لیے دعا کرتے ہوئے ہمارے عظیم رہنما (ایرانی رہبرِ اعلیٰ) کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔‘

ایسی ہی ایک اور متنازع مثال قُم شہر میں نمازِ جمعہ کے دوران امام محمد سعیدی کی تقریر تھی، جس میں آیت اللہ علی خامنہ ای کی ولادت کے لمحے کے بارے میں ایک کہانی بیان کی گئی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنی پیدائش کے وقت ’یا علی‘ (شعیہ اسلام میں حضرت علی کو مدد کے لیے بلانا) کہا تھا۔‘

ایرانی رہبرِ اعلیٰ سید علی خامنہ ای کے روابط اور روحانی مقام و مرتبے کے بارے میں دعوے کرنے والے عہدیداروں، مفسرین اور بعض علما کے حوالے سے یہ بات واضح نہیں کہ کبھی ان کا آیت اللہ خامنہ ای سے سامنا ہوا یا نہیں۔ اب تک میڈیا میں ایسی کوئی خبر یا مضمون نہیں آیا جس سے اس بارے میں کوئی معلومات مل سکے۔

جو واحد معاملہ میڈیا کی زینت بنا وہ قُم کے امام کو پڑنے والی ’ڈانٹ‘ تھی، جس کی وجہ آیت اللہ خامنہ ای کی ولادت سے متعلق ان کی تقریر بنی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سرزنش بھی اس وقت سائبر سپیس میں بنائی جانے والی میمز کا ردِعمل تھی۔

علما کیوں خاموش ہیں؟

آیت اللہ خمینی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اور علی خامنہ ای اور ابراہیم رئیسی کے بارے میں جو کچھ شائع ہو چکا ہے وہ ایران کے تاریخی، سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

ایرانی انقلاب کے بعد اس قسم کے پروپیگنڈے میں شدت آئی، اس کی بہت تشہیر کی گئی اور مذہبی مدارس کے نامور علما کی خاموشی ایک طرح سے اس پروپیگنڈے کی تصدیق سمجھی جاتی ہے۔

موجودہ دور کی جدید سہولیات نے شیعہ اماموں سے منسوب بعض تقاریر، خطوط و حکایات کو زیادہ بہتر انداز میں عوام کے سامنے لانے میں مدد کی ہے اور اس کی بنیاد پر نیا مواد اور تحریریں بھی لکھی گئی ہیں۔

تاہم مذہبی محققین اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ توہمات اور جھوٹی احادیث پرانے زمانے سے پھیلتی رہی ہیں۔ اگرچہ غلط روایات اور احادیث شئیر کرنے کا سلسلہ ماضی کی طرح زور و شور سے نہیں چل رہا لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ’ثواب‘ کے چکر میں جھوٹے خواب، ان کی جھوٹی تعبیریں اور علما سے منسوب جھوٹے اقتباسات شئیر کرتے ہیں۔

وقتاً فوقتاً بعض مذہبی تقاریر، تعزیوں اور جنازوں میں مہدیت، ظہور امام مہدی، مذہبی مقامات اور مزاروں کی عظمت کے حوالے سے متعدد دعوؤں کا ذکر ملتا ہے، جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔

لیکن کوئی ایسی اتھارٹی موجود نہیں ہے جو ایسے الفاظ کی روک تھام کر سکے۔ بعض علما کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلام اور بالخصوص ’اسلامی حکومت‘ کے تحفظ کے لیے ایسی باتیں ضروری ہیں اور ان کو نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے۔

مذہبی محقق اور مفکر یاسر میرد امادی کہتے ہیں کہ ’مذہبی علما کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی اس تقدیس اور ان بدعتوں کے حوالے سے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور ان علما کے دوسرے گروہ میں عملی طور پر ردعمل ظاہر کرنے کی ہمت نہیں ہے۔‘

ایک مدرسے کے معلم محمد سروش محلاتی سمجھتے ہیں کہ آج کے علمائے دین کا سب سے بڑا مسئلہ ’حکومت پر انحصار، لالچ اور خوف ہے اور اسی باعث مذہبی علما کو منھ بند رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کی آزادی نہ چھین لی جائے۔‘

سروش محلاتی کہتے ہیں کہ علما کی جانب سے محض سائنسی و اخلاقی تعلیم اور تقویٰ پر زور دینا ہی کافی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جو شخص فقیہ اور مجتہد ہے، لیکن بزدل ہے، وہ اس مکتب کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اس کی روح ہی مذہب سے ہم آہنگ نہیں ہے۔‘

’اس کا جو دل چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں