لاہور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) صحافی، ٹی وی میزبان اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کو لاہور کے ہوائی اڈے سے ایک بار پھر اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ اہلِ خانہ کے ہمراہ حج کے لیے سعودی عرب روانہ ہونے والے تھے۔
https://x.com/ImranRiazKhan/status/1800632456124739997?t=_sggIVcq3OW6KN09xFs6Yw&s=19
عمران ریاض کے خلاف لاہور کے تھانہ نصیر آباد میں دفعہ 406 یعنی امانت میں خیانت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اُنہیں بدھ کو لاہور کی ماڈل ٹاؤن کچہری میں پیش کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق لاہور کے ایک رہائشی نے عمران ریاض خان کو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی فیز نو میں فائلز خریدنے کے لیے ڈھائی کروڑ روپے دیے۔ عمران ریاض پر الزام ہے کہ اُنہوں نے چار ماہ گزرنے کے باوجود نہ تو درخواست گزار کو فائلیں لے کر دیں بلکہ رقم کی واپسی کے تقاضے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
عمران ریاض خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے چند ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں وہ احرام میں نظر آ رہے ہیں اور انہیں لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں اندر داخل ہونے سے قبل روک لیا گیا ہے۔
ویڈیوز میں نظر آ رہا ہے کہ ان کی گاڑی کے گرد سادہ لباس کچھ افراد کھڑے ہیں جن سے عمران ریاض خان کے ساتھ موجود لوگ پوچھ رہے ہیں کہ وہ ان کو اپنا تعارف کرائیں۔
اس دوران پولیس کے وردی میں ملبوس اہلکار پہنچتے ہیں جو گاڑی کو گھیر لیتے ہیں جب کہ وہاں موجود وکلا اور دیگر افراد کے موبائل کیمرے بھی بند کرا دیے جاتے ہیں۔
عمران ریاض خان نے ایئرپورٹ روانگی سے قبل بھی احرام میں ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی جس میں انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ ہوائی اڈے پر ان کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
عمران ریاض خان کے بقول وہ 2022 میں بھی حج کے لیے جانا چاہتے تھے لیکن انہیں جانے نہیں دیا گیا تھا اور جب 2023 وہ حج پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے تو اس وقت بھی وہ حراست میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے اور عدالتوں میں پیش ہونے سمیت تمام اداروں سے تعاون بھی کر رہے ہیں۔
توہینِ عدالت کی درخواست دائر
عمران ریاض خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح حکم کے باوجود حج ادائیگی سے روکنے پر سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی امیگریشن اور پاسپورٹ، آئی جی پنجاب اور ایس پی لاہور کینٹ کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ درخواست میں دانستہ توہینِ عدالت پر کارروائی کر کے سزا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے اسلام آباد میں نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو میں میاں علی اشفاق نے کہا کہ عمران ریاض خان کی تمام مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لاہور ایئرپورٹ کے باہر پہلے سادہ لباس افراد نے گاڑی روکی۔ اس کے بعد پولیس اہلکار آئے اور کسی بھی قسم کا وارنٹ دکھائے بغیر عمران ریاض خان کو گرفتار کر لیا۔
وائس آف امریکہ کے لاہور میں نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں عمران ریاض خان کو گرفتار کرنے اور ان پر درج ایف آئی آرز کی تفصیلات کے لیے ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے متفرق درخواست دائر کر دی جس میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 11 جون کو عمران ریاض خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال دیا گیا۔ عمران ریاض خان لاہور ایئرپورٹ سے حج پر جا رہے تھے جب انہیں حراست میں لیا گیا۔ ان کو گرفتار کر کے کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز کی تفصیلات دیے بغیر انہیں حراست میں لیا گیا۔
ان کے بقول عمران ریاض خان کی تمام مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض خان کو پھر گرفتار کیا گیا ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ان پر کون سی ایف آئی آر ہے؟ تو ڈاکٹر عثمان انور نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ کس مقدمے میں گرفتار ہیں البتہ ان کا کہنا تھا کہ بغیر ایف آئی آر کے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے یا پولیس میں کیس درج ہو تو پھر کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
عمران ریاض کو موجودہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جاتا ہے۔ وہ حالیہ عرصے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا حامی قرار دیا جاتا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپریل 2022 میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد سے ہی عمران ریاض خان سوشل میڈیا پر خاصے متحرک رہے ہیں اور مقتدر حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
وہ گزشتہ برس مئی میں لاپتا بھی ہو گئے تھے اور لگ بھگ ساڑھے چار ماہ بعد ستمبر 2023 میں وہ واپس آئے تھے۔ اس دوران ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کیس کی متعدد بار سماعت بھی کی تھی۔
رواں برس فروری میں بھی عمران ریاض خان کو گرفتار کیا گیا تھا ان پر مذہبی منافرت پھیلانے اور چیف جسٹس کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کا الزام لگایا گیا تھا۔