لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) لاہور ہائی کورٹ نے انسدادِ دہشت گردی عدالت سرگودھا کے جج کی جانب سے آئی ایس آئی پر ہراسانی کے الزامات سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
ازخود نوٹس کیس کی سماعت جمعرات کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد نے کی۔
اے ٹی سی سرگودھا کے جج محمد عباس نے آئی ایس آئی کی جانب سے ہراساں کرنے اور انسدادِ دہشت گردی عدالت کے باہر فائرنگ پر لاہور ہائی کورٹ کو خط ارسال کیا تھا۔
جج کا کہنا تھا کہ “وہ گزشتہ ماہ سے یہاں تعینات ہیں۔ اُنہیں پیغام پہنچایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ لوگ اُن سے عدالتی چیمبر میں ملنا چاہتے ہیں۔”
خط کے مطابق اُن کے انکار پر کچھ لوگوں نے اُن کے گھر کے باہر لگے گیس کے میٹر کو توڑ دیا۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اُنہیں واپڈا کی جانب سے بجلی کا اضافی بل بھیجا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سرگودھا نے نو مئی کے مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے 70 سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو بری کر دیا تھا جن کے خلاف تھانہ سٹی میانوالی میں دو الگ الگ مقدمات درج تھے۔ تاہم عدالت نے عدم حاضری پر پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کر دی تھی جن کے خلاف نو مئی کے حوالے سے میانوالی میں مقدمہ درج ہے۔
سماعت کے دوران مزید کیا ہوا؟
سماعت کے دوران آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر سرگودھا پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ کا کیا مؤقف ہے؟
آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ یہ انتہائی اہم اور عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ عدالت میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جو انتہائی حساس اور خفیہ ہے۔ یہ رپورٹ تھریٹ الرٹس سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا کہ جوڈیشل افسر نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کی طرف سے میسج آیا ہے کہ آئی ایس آئی کے لوگ اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا پولیس نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے جس نے یہ کہا کہ اُس نے جج سے ملنا ہے۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت اُنہیں مؤقف پیش کرنے کا موقع دے۔ پولیس کو سرگودھا کے اُس علاقے کی جیو فینسگ کی ضرورت ہے جہاں جج کو کال ہوئی۔ پولیس کو بندہ ڈھونڈنے کے لیے سی ڈی آر بھی چاہیے۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جج کو کال واٹس ایپ پر کی گئی ہے یا کسی اور طریقے سے کال کی گئی ہے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت سے کہا کہ وہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع کے ساتھ پولیس کی کمیٹی بنا دیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہر بندے کو قانون کا تحفظ حاصل ہے جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس کو سرگودھا، میانوالی اور بھکر کے جوڈیشل کمپلیکسز بارے تھریٹ ملے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تھریٹ ہے یا نہیں ہے آپ یہ بتائیں سرگودھا کی عدالت میں وکلا کو جانے سے کیوں روکا گیا؟ وہ قانون بتا دیں جس کے ذریعے تھریٹ کے نام پر لوگوں کو بنیادی حقوق سے دور رکھا جائے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو وہاں سے 17 گولیوں کے خول ملے ہیں۔ معاملے کی تحقیق کے لیے یہ کیس انسدادِ دہشت گردی پولیس کو بھجوا دیا ہے۔
آئی جی کے جواب پر چیف جسٹس لاہور ہائی کوٹ نے استفسار کیا کہ پولیس نے ابھی تک کون سا بندہ گرفتار کیا ہے؟ جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ پولیس کو جیو فینسک کی اجازت دے دیں، وہ جیو فینسنگ کر کے عدالت کو رپورٹ دے دیتے ہیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سرگودھا اے ٹی سی جج کے گھر کا میٹر بھی توڑ دیا گیا ہے۔ جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ اُنہوں نے چیک کرا لیا ہے۔ پولیس کو اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں ملی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ “آئی جی پنجاب صاحب یہ اپ کے بس کا معاملہ نہیں ہے۔ آئی جی پولیس نے جواب دیا کہ اس کیس میں عدالت کا حکم چاہیے تا کہ وہ وفاقی حکومت سے جیو فنسنگ کی اجازت لیں۔”
دورانِ سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان نے ڈی پی او سرگودھا سے استفسار کیا کہ ڈی پی او سرگودھا یہ بتائیں کہ کس قانون کے تحت سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس کو بند کیا گیا۔ ڈی پی او سرگودھا نے جواب دیا کہ وہاں تھریٹ الرٹ تھے، پولیس نے سرچ اینڈ سویپ آپریشن کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے یہ کام صرف اس لیے کیا کہ اے ٹی سی جج کے پاس جو کیسَز لگے ہیں وہ ان پر کارروائی نہ کر سکیں۔
اِس موقع پر آئی پنجاب پولیس نے بولنے کی کوشش کی تو آئی جی پنجاب کے بار بار بولنے پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ خاموش رہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیوں نہ سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس بند کرنے پر پولیس کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔
ڈی پی او سرگودھا نے جواب دیا کہ اے ٹی سی سرگودھا کے باہر ہجوم تھا، سیکیورٹی تھریٹ تھے اس لیے بند کیا گیا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تھریٹ الرٹ تو پورے پاکستان ہیں پھر سب کچھ بند کر دیں۔
اِس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ “اے ٹی سی جج سرگودھا ایک اچھے جج ہیں۔ اے ٹی سی جج نے عدالت کو لکھے خط میں کہا کہ ان کی حفاظت اللہ نے کرنی ہے۔”
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ڈی پی او سرگودھا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا حساب تو انہوں نے لینا ہے جنہیں وہ خوش کر رہے ہیں۔
اِس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی پنجاب صاحب عدالتوں کا مذاق نہ بنائیں۔ نو مئی والے بندے اندر ہیں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا کارروائی ہو گئی۔ وہ تو چلیں عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں۔ جو جج پسند نہیں آتا ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع ہو جاتی ہے۔ درخواست آ جاتی ہے پروگرام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مقدمے کا اندارج
اے ٹی سی جج کے خط پر پولیس کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چند نامعلوم افراد نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے باہر لگے بجلی کے ٹرانسفارمر پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں عدالت کے اندر کی بجلی چلی گئی۔
اس معاملے کی گونج پنجاب اسمبلی تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اجلاس سے قبل اسپپکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ‘حادثہ’ ہے۔
واضح رہے کہ ریاستی ادارے عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔