نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انسانی حقوق کے ماہرین نے الزامات لگائے ہیں کہ اسرائیلی دفاعی افواج اور فلسطینی عسکریت پسند دونوں ہی غزہ کی جنگ کے ابتدائی کچھ ماہ کے دوران جنسی اور صنفی بنیادوں پر کیے گئے تشدد میں ملوث رہے۔
آزاد ماہرین کے کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیلی دفاعی افواج اور حماس کے جنگجو جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے جبکہ اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب بھی کیا۔
اسرائیل نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس کمیشن کی طرف سے چھان بین کے دوران اسرائیلی حکومت نے ان ماہرین کے ساتھ تعاون سے بھی انکار کر دیا تھا۔
اس کمیشن کی رپورٹ گزشتہ برس سات اکتوبر سے لے کر سال کے اختتام تک اس تنازعے کے دونوں فریقوں کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں اور جرائم کی تفصیلی چھان بین کے نتائج پر مبنی ہے۔
اس آزاد انکوائری کمیشن کی یہ رپورٹ سات اکتوبر کو شروع ہونے والے اس مسلح تنازعے کے حوالے سے حقائق جاننے کی خاطر اقوام متحدہ کی اولین تفصیلی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا؟
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز جبری بھوک، ہلاکتوں یا قتل عمد، اجتماعی سزا اور شہریوں پر جان بوجھ کر حملوں سمیت دیگر کارروائیوں کی مرتکب ہوئیں جبکہ حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے عسکری شعبوں نے شہریوں کے ساتھ دانستہ بدسلوکی، قتل اور یرغمال بنانے جیسے اعمال کا ارتکاب کیا۔
اس رپورٹ کے متن کے مطابق گزشتہ سال اس تنازعے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جنسی اور صنفی بنیادوں پر پیش آنے والے واقعات اور ان کی شدت اس بات کی غماز ہیں کہ اس طرح کے تشدد کی کچھ اقسام ‘اسرائیلی دفاعی افواج کے آپریٹنگ طریقہ کار کا حصہ ہیں‘۔
حماس پر عائد کردہ الزامات کیا؟
حماس کے عسکری ونگ کی جانب سے اسرائیلی خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی تردید کے باوجود اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میوزک فیسٹیول کے مقام کے قریب ہی خواتین اور مردوں کے خلاف ‘جنسی تشدد کے واقعات‘ کے شواہد ملے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے غزہ پٹی سے اسرائیلی سرزمین میں داخل ہو کر اسی میوزک فیسٹیول کے شرکاء پر حملہ کیا تھا، جس میں کم ازکم بارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ یہ عسکریت پسند ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر ساتھ بھی لے گئے تھے۔ خیال رہے کہ امریکہ، اسرائیل، یورپی یونین اور کئی دیگر ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
مغربی کنارے میں بھی ‘پامالیاں‘
اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج نے جنسی تشدد، تشدد اور غیر انسانی یا ظالمانہ سلوک اور ذاتی وقار کو پامال کرنے کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا، ”یہ سب جنگی جرائم ہیں۔”
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور افواج نے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو ‘فلسطینی کمیونٹیز کے خلاف تشدد کی ایک مہم کی نہ صرف اجازت دی بلکہ انہیں ایسا کرنے پر اکسایا بھی‘۔
یہ رپورٹ کیسے ترتیب دی گئی؟
یہ رپورٹ متاثرین اور عینی شاہدین کے انٹرویوز، ہزاروں تصدیق شدہ اوپن سورس آئٹمز، سیٹلائٹ تصاویر اور فورینزک میڈیکل رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
ان غیر جانب دار اور آزاد معائنہ کاروں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اسرائیل نے اس کمیشن کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی اور اسے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے تک رسائی سے روک دیا۔
یہ رپورٹ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی جائے گی۔
غزہ میں فائربندی کی کوششیں جاری
دریں اثنا عالمی برادی غزہ میں فائر بندی کی کوششوں کے لیے سرگرداں ہے۔ امریکہ، قطر اور مصر کی طرف سے فائر بندی کی مجوزہ ڈیل کو منظور کروانے کی خاطر امریکی وزیر خارجہ نے مشرق وسطیٰ کا ایک اور دورہ کیا ہے۔
تاہم حماس کے جنگجوؤں نے فائر بندی کی اس مجوزہ ڈیل پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے کہہ دیا ہے کہ غزہ میں مستقل اور پائیدار جنگ بندی کے بغیر اس ڈیل کو منظور نہیں کیا جا سکتا۔
اس مجوزہ ڈیل کو منگل کی رات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی منظور کر لیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کی فائر بندی کی جائے گی، جس کے بعد یہ مستقل اور پائیدار بنا دی جائے گی۔
دریں اثنا اسرائیلی دفاعی افواج غزہ پٹی میں عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں حماس کی طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال سات اکتوبر سے جاری ان حملوں کی وجہ سے فلسطینی ہلاکتوں کی تعداد 37 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی اب 90 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔