اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) جبری گمشدگی کے مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سے لوگوں میں نفرت ’اداروں کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف بڑھ رہی ہے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لاپتہ شہری خواجہ خورشید کی بازیابی کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ و سیکرٹری دفاع کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ سیکرٹریز ’آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف آئی اے سے معلوم کر کے رپورٹ جمع کرائیں۔‘
عدالت نے حکم دیا ہے کہ سیکریٹری دفاع راولپنڈی، اسلام آباد اور کشمیر کے سیکٹر کمانڈرز سے رپورٹ لے کر آگاہ کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مسنگ پرسن کی اہلیہ خلیفہ خورشید کی درخواست پر احکامات جاری کیے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ خواجہ خورشید نے نیلم ویلی سے ایم ایل اے کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔
درخواست گزار کے وکلا نے اس درخواست میں بنائے گئے فریقوں کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی تھی جسے جسٹس محسن اختر کیانی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے رپورٹ نہیں آجاتی اس وقت تک نوٹس جاری جاری نہیں کیا جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ پالیسی بنانے والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ’ایک ایکشن کا ری ایکشن بڑا سخت آ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عدالتوں کا کام جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی تک ہی محدود رہ گیا ہے۔
وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم انیس الرحمن کو پانچ جون کو بلوچستان سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور ابھی تک ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے پانچ طالب علموں کو ’اٹھایا گیا تھا جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اب گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’چلیں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی لمبی فہرست میں کچھ تو کمی واقع ہوئی ہے۔‘
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ان کے علاوہ ایک اور بلوچستان کے رہائشی راشد حسین کو دوبئی کی حکومت کے پاکستان کی درخواست پر ڈی پورٹ کرکے واپس بھیجا تھا لیکن ابھی تک ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں وزارت خارجہ سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں مل رہا۔
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر راشد حسین پاکستان آیا تھا تو اس کی بازیابی حکومت وقت کا کام ہے۔‘
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ’راشد حسین سنہ دو ہزار انیس میں دوبئی سے پاکستان آئے تھے اور اس کے بعد ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ وہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے معاملے کو دیکھنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیں۔
انھوں نے کہا کہ جو معاملات نیشنل سکیورٹی سے متعلق ہیں تو ان کی کارروائی کو اِن کیمرا کر دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئندہ ایسے واقعات میں اٹارنی جنرل یا ایڈشنل اٹارنی جنرل کو نہیں بلائیں گے بلکہ ان اداروں کے سربراہوں کو طلب کریں گے جن پر جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
انھوں نے کہا کہ اداروں کے وقار میں اضافہ ہونے کی بجائے ان اداروں کے خلاف ’نفرت بڑھ رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی ایک بڑا اچھا ادارہ تھا لیکن ایک ادارے کی مداخلت کی وجہ سے یہ ادارہ بھی صیح طریقے سے کام نہیں کر رہا۔
انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں عدالت مایوس ضرور ہوتی ہے لیکن وہ اس مقدمے کو ختم نہیں کرے گی جب تک وہ بازیاب نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ اداروں نے پرفارم کرنا ہوتا ہے لوگوں کو اٹھانا نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اگر عدالت نے متعقلہ افراد کے خلاف کارروائی کی ٹھان لی تو اس حکومت کے پچاس فیصد افراد کے خلاف کارروائی ہو جائے گی اور سب کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی مقامی عدالت نے مزاحمتی شاعر احمد فرہاد کی دو مقدمات میں ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
احمد فرہاد کی وکیل ایمان مزاری کے مطابق احمد فرہاد کے خلاف دو مقدمات درج تھے جن میں سے ایک قابل ضمانت تھا جبکہ دوسرا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تھا اور ان دونوں کیسز میں ان کی ضمانت ہو گئی ہے۔