واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) امریکی فوج نے کہا کہ خلیج عدن میں ایک مال بردار بحری جہاز پر حوثیوں کی طرف سے داغے گئے میزائلوں کے نتیجے میں ایک امریکی سویلین ملازم شدید زخمی ہو گیا۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کوم) کا کہنا ہے کہ خلیج عدن میں ایک مال بردار بحری جہاز پر یمن میں حوثی باغیوں نے دو کروز میزائلوں سے حملے کیے، جس کے نتیجے میں ایک امریکی سویلین ملازم (سیلر) شدید زخمی ہو گیا۔ سینٹ کوم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ زخمی کارکن کو علاج کے لیے ایک دوسرے بحری جہاز پر پہنچا دیا گیا ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ عملے کے اراکین ایم وی وربینا نامی بحری جہاز پر سوار تھے۔ مغربی بحرالکاہل کے ملک پالاؤ کے پرچم والا یہ مال بردار جہاز ایک یوکرینی کمپنی کی ملکیت ہے، اور اسے پولینڈ کی ایک کمپنی آپریٹ کرتی ہے۔
سینٹ کوم نے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ اس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران حوثیوں کی دو گشتی کشتیوں اور ایک ڈرون کو تباہ کر دیا۔ ”ہمیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ کشتیاں اور ڈرون امریکہ، اتحادی افواج اور خطے میں تجارتی بحری جہازوں کے لیے ایک ممکنہ خطرہ ہیں۔‘‘
حوثیوں کی جانب سے تین جہازوں پر حملوں کا دعویٰ
یمن کے حوثی باغیوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین بحری جہازوں پر حملے کیے، جن میں ایم وی وربینا بھی شامل ہے۔ حوثی باغیوں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ”یہ حملے غزہ پٹی میں ہمارے لوگوں کے خلاف کیے گئے جرائم اور ہمارے ملک کے خلاف امریکی اور برطانوی جارحیت کے جواب میں کیے گئے ہیں۔‘‘
یہ تازہ ترین حملہ اس واقعے کے ایک روز بعد ہوا جب ایرانی حمایت یافتہ اس عسکریت پسند گروپ نے بحیرہ احمر میں یونانی ملکیت والے ایک بحری جہاز کو نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے اس جہاز میں پانی بھر گیا تھا۔
حوثی باغی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں نومبر سے ہی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تمام جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کے اظہار کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
حوثیوں کے حملوں کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے بھی یمن میں اب باغیوں کے متعدد ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے، ”حوثی غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ ان ملکوں کے شہریوں کے جان و مال کو نشانہ بنا رہے ہیں، جن کا غزہ کے تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
بحیرہ احمر میں اس صورت حال کی وجہ سے بہت سی شپنگ کمپنیوں نے اس آبی گزرگاہ کا استعمال بند کر دیا ہے، جس کے ذریعے 12 فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔