واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) امریکی فوج نے ہفتے کے روز بتایا کہ اس نے بحیرہ احمر کی آبی گزرگاہ پر ایک تجارتی جہاز پر یمن کے حوثی باغیوں کے حملے کے بعد ان کے ریڈار کے ٹھکانوں پر حملے شروع کیے ہیں۔ حوثیوں کے حملے میں ایک تجارتی جہاز کا ایک ملاح لاپتہ ہو گیا تھا۔
امریکہ کی جانب سے یہ کارروائی ایک ایسے موقعے پر کی گئی ہے جب اس کی بحریہ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے حوثیوں کے مقابلے میں سب سے شدید لڑائی کا سامنا ہے۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملوں کا مقصد غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کو روکنا ہے۔ لیکن یمن کا یہ باغی عسکری گروپ، جسے ایران کی مدد اور حمایت حاصل ہے، اکثر ایسے بحری جہازوں اور ملاحوں کو نشانہ بناتا ہے جس کا غزہ کی جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
بحیرہ احمر کی آبی گزرگاہ ایشیا، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایندھن اور تجارتی سامان کی نقل و حمل کا ایک اہم راستہ ہے اور حوثیوں کے حملوں کے نتیجے میں اس آبی راہداری سے آمد و رفت نمایاں طور پر گھٹ چکی ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں حوثیوں کے کنٹرول کے علاقے میں سات ریڈار تباہ ہو گئے ہیں۔
سینٹرل کمان کے بیان میں کہا ہے کہ حوثی ان ریڈاروں سے بحری جہازوں پر حملے کرنے میں مدد لے رہے تھے۔
حوثی 2014 سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں۔
سینٹرل کمان نے بتایا ہے کہ لائبیریا کے پرچم بردار یونانی ملکیت کے ایک مال بردار جہاز کا ایک ملاح بدھ کے روز حوثیوں کے حملے کے بعد سے لاپتہ ہے۔ اس جہاز پر حملے کے لیے حوثیوں نے بم بردار ڈرون کشتی استعمال کی تھی۔
فوج کے ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ بحیرۂ احمر میں دو بم بردار ڈرون کشتیاں اور حوثیوں کی جانب سے لانچ کیا جانے والا ایک ڈرون بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کی سمندری امور سے متعلق انتظامیہ کے مطابق نومبر میں حوثیوں کے حملوں کے آغاز سے اب تک 50 سے زیادہ حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں تین ملاح ہلاک ہوئے، ایک جہاز پر باغیوں کا قبضہ ہوا اور ایک اور جہاز کو انہوں نے غرق کر دیا تھا۔
دوسری جانب حوثیوں کا کہنا ہے کہ جنوری میں امریکی قیادت میں ان پر کیے گئے فضائی حملے میں 30 مئی تک کم ازکم 16 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں گزشتہ سال 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ میں، غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ یہ جنگ حماس کے ان عسکریت پسندوں کے خلاف کر رہا ہے جنہوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقے میں اچانک بڑا حملہ کر کے تقریباً 1200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں سے تبادلے کے بدلے میں تقریباً 100 یرغمال آزاد ہو گئے تھے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ 116 یرغمال ابھی بھی حماس کی قید میں ہیں اور اسرائیل کے اندازوں کے مطابق ان میں سے 40 سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
سینٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ ایک جانب حوثی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت یہ حملے کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ ان ملکوں کے شہریوں کو ہدف بنا رہے ہیں جن کا غزہ کے تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سینٹرل کمان کا مزید کہنا ہے کہ حوثیوں کے حملوں کے نتیجے میں بین الاقوامی تجارت کے لیے خطرہ پیدا ہوا ہے، اس نے درحقیقت یمن میں خوراک کی شدید قلت کے شکار لوگوں اور غزہ میں ضرورت مند فلسطینیوں کے لیے امداد کی فراہمی کو مشکل بنا دیا ہے۔