20

’عید منانے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں‘: کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلی

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عیدالاضحیٰ کے روز بھی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی اور جلسہ منعقد کیا۔

ریلی کا آغاز لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ سے ہوا جس میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے۔ ریلی کے شرکا مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب کے باہر پہنچے جہاں احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔

ریلی کے شرکا کے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصاویر کے علاوہ کتبے بھی تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق نعرے درج تھے۔

احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کے رشتہ دار گذشتہ کئی سال سے عید پر بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کی بجائے نہ صرف جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ریاستی ادارے اسے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار کسی بھی صورت اپنے جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے اور جب تک آخری لاپتہ فرد بازیاب نہیں ہوتا تو وہ اس وقت تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما صبغت اللہ شاہ نے کہا کہ اگر جبری گمشدگیوں کا سلسلہ برقرار رکھا گیا تو لاپتہ افراد کے رشتہ دار آئندہ سیکورٹی فورسز کے کیمپوں کے باہر اپنا احتجاجی کیمپ لگائیں گے۔

احتجاجی جلسے سے خطاب کرنے والوں کی بڑی تعداد ان خواتین پر مشتمل تھی جن کے رشتہ دار مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے شکار ہوئے ہیں۔

ان خواتین میں طالب علم رہنما ذاکر مجید بلوچ کی والدہ بھی شامل تھیں جنھوں نے کہا کہ وہ ایک دہائی سے زائد کے عرصے سے اپنے بیٹے کے انتظار میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ذاکر مجید کو ان کے بعض دیگرساتھیوں کے ہمراہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا لیکن چند روز بعد ان کے دیگر ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا مگر ذاکر مجید بلوچ ابھی تک لاپتہ ہیں۔

احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عبدالواحد کرد کی بہن نے کہا کہ ان کے دو بھائیوں عبدالواحد کرد اور داد محمد کرد کو 15 سال پہلے لاپتہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بہن کی کیا حالت ہوگی جو کہ ڈیڑھ دہائی کے عرصے سے دو لاپتہ بھائیوں کے انتظار میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے رشتہ دار جس اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں اس کے باعث وہ نہیں جانتے کہ عید یا کسی اور تہوار کی خوشی کیا ہوتی ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ لاپتہ افراد کی مائیں اور بہنیں آج گھروں میں عید منانے کی بجائے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔‘

حیدرآباد سندھ سے لاپتہ ہونے والے غلام فاروق بلوچ کی خالہ نے کہا کہ ان کا بھانجا محنت مزدوری کے سلسلے میں حیدرآباد میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ غلام فاروق کو دیگر افراد کے ہمراہ نو سال پہلے لاپتہ کیا گیا۔ ’باقی افراد کو چھوڑ دیا گیا لیکن غلام فاروق تاحال بازیاب نہیں ہوئے۔‘

غلام فاروق کے والد اور والدہ دونوں بڑھاپے میں اپنے سہارا کے انتظار کرتے رہے لیکن وہ دونوں انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا بیٹا بازیاب نہیں ہوا۔

مقررین نے حکومت سے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ان میں سے کسی پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں