سندھ میں اب صحافیوں پر بار بار قاتلانہ حملوں کی وجوہات کیا؟

کراچی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) اندرون سندھ میں تیس دن میں تین صحافیوں پر قاتلانہ حملے کیے گئے۔ صحافی نصراللہ گڈانی اور عبدالسیع چولیاٹی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے جبکہ صحافی حیدر مستوئی شدید زخمی ہیں۔

گھوٹکی سے تعلق رکھنے والےصحافی نصراللہ گڈانی پر 21 مئی کو قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ چار گولیاں ان کے سینے میں لگیں۔ انہیں علاج کے لیے ائیر ایمبولینس کے ذریعے گھوٹکی سے کراچی منتقل کیا گیا۔ چار روز بعد انکا انتقال ہوگیا۔

صحافی عبد السمیع چولیاٹی کو 12 جون کی رات نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔ وہ پہلے مہران نیوز ٹی وی اور بعد میں ہفتہ وار میگزین کرم پور ٹائمز میں بطور رپورٹر کام کر رہے تھے ۔ صحافی عبد السمیع کے بھائی نظیر چولیاٹی نے بتایا کہ انکے مرحوم بھائی پرائمری اسکول میں ٹیچر بھی تھے ۔ کرمپور تھانے میں ملزمان کےخلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے۔

صحافی اعظم مستوئی نے بتایا کہ 29 مئی کی رات صحافی حیدر مستوئی کو اچھی کبیوں کے قریب تین موٹر سائیکل سواروں نے ایڈریس پوچھنے کے لیے روکا۔ حیدر مستوئی کے ساتھ انکا کیمرا مین خان محمد پتافی بھی تھا۔ مسلح افراد نے دونوں افراد سے نام معلوم کیے اور پھر چھ گولیاں صحافی حیدر مستوئی پر برسائیں جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی صحافی حیدر مستوئی کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

صحافتی تنظیموں کی طرف سے مذمت

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری فنانس لالہ اسد پٹھان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئی ایف جے کی رپورٹ کے مطابق اب تک 147 صحافیوں کو پاکستان میں قتل کیا جاچکا ہے۔ جس میں سے اڑتالیس صحافی خبر کی بنیاد پر اور ایک سو صحافی ذاتی مسائل کی وجہ سے قتل کیے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کے قتل کی تین اہم وجوہات ہیں۔

صوبہ سندھ میں صحافی جب سردار ، پیر ، میر یا کسی سیاسی لیڈر کے کالے کرتوت عیاں کرتے ہیں تو صحافیوں کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہیں اسکے ساتھ قتل کی دھمکیاں بھی صحافیوں کو موصول ہوتی رہتی ہیں اور پھر گولیاں مار کر صحافیوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔

بلوجستان اور کے پی کے میں انتہاپسند صحافیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

تیسری وجہ ریاستی اجنسیوں کی مرضی کے خلاف اگر رپورٹس بنائی جائیں تب بھی خمیازہ صحافیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

لالہ اسد پٹھان کا کہنا تھا کہ کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ سچ لکھنے اور بولنے پر صحافیوں کو قتل کردیا جاۓ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ان تمام واقعات کی مذمت کرتی ہے ۔ پی ایف یو جے کی بھرپور کوشش ہے کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل پر عمل درآمد کروایا جاۓ۔

پولیس اور ریاستی اداروں کا کردار

ایس ایس پی پولیس عرفان سموں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحافیوں کے قتل میں ملوث کچھ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس سندھ کے کچے کے علاقوں میں رینجرز کی مدد سے آپریشن کررہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا،”سکھر سمیت دیگر اضلاع میں ڈاکوں کی بیشتر کمین گاہوں کو مسمار کردیا گیا ہے اور ہم پر امید ہیں کہ باقی ملزمان بھی جلد گرفتار کر لیے جائیں گے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں