امریکہ کی تائیوان کو اسلحے اور ڈرونز کی فروخت کی منظوری

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/رائٹرز) امریکی حکومت نے تائیوان کو مستقبل میں 300 ملین ڈالر سے زیادہ کے عسکری آلات کی منتقلی کی منظوری دے دی ہے۔ اس اقدام سے چین کے سخت ناراض ہونے کی توقع ہے، جو تائیوان کو اپنا ہی ایک علاقہ ہونے کا دعوی کرتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع پینٹاگون نے منگل کے روز بتایا کہ حکومت نے تائیوان کو 360 ملین ڈالر کی مالیت کے ڈرونز اور اس سے متعلقہ آلات سمیت مختلف عسکری آلات کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔

پینٹاگون نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ اس سودے سے، ”وصول کنندگان کی سلامتی کو بہتر بنانے اور خطے میں سیاسی استحکام، فوجی توازن اور اقتصادی پیش رفت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔”

اس سودے میں سوئچ بلیڈ اینٹی پرسنل اور اینٹی آرمر لوئٹرنگ گولہ بارود نیز ALTIUS 600M-V ڈرون اور اس سے متعلق ساز و سامان شامل ہیں۔

ایک اسٹریٹیجک ہدف کو نشانہ بنانے سے پہلے اس کے قریب انتظار کر کے اور اس کے اس پاس چکر لگانے کی مناسبت کی وجہ سے، اسے لوئٹرنگ گولہ بارود کو کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں تائیوان کی وزارت دفاع نے ہتھیاروں کی ترسیل میں تاخیر کی شکایت کرتے ہوئے، خاص طور پر کھیپ کے حجم کو بڑھانے کے لیے، امریکی کوششوں کا شکریہ ادا کیا تھا۔

تائیوان کیلئے عسکری برآمدات چین کے لیے عدم اطمینان کا باعث

امریکہ تائیوان کا ایک بڑا فوجی برآمد کنندہ اور عطیہ دینے والا ملک ہے۔ اس نوعیت سے یہ معاہدہ غیر معمولی نہیں ہے، تاہم چین ممکنہ طور پر امریکی ہتھیاروں کی اس فروخت سے نالاں ہوگا اور اس کی جانب سے سخت رد عمل کی توقع ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ کہتا ہے۔

امریکہ چین اور تائیوان سے متعلق اپنی ایک ایسی پالیسی پر ہے کہ وہ اسے ایک طرف، تو ”چائنا ون” یعنی متحدہ چین کے موقف پر قائم ہونے کی بات کرتا ہے دوسری جانب وہ اسے ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ بیجنگ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ کوئی بھی ملک صرف چین کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھے اور تائیوان کے ساتھ نہیں۔

دوسری طرف امریکی کانگریس کا ایک ایکٹ بھی امریکی حکومت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ تائیوان کو اپنے اور اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے ذرائع فراہم کرے۔

حالیہ دہائیوں میں یہ ضرورت اور زیادہ پریشانی کا باعث بن گئی ہے، کیونکہ چین کی فوج اب اس سائز تک بڑھ گئی ہے کہ کاغذ پر امریکہ اور تائیوان جیسے حریفوں سے بھی کہیں زیادہ معنی رکھتی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کے روز اس سودے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ سودا ”امریکہ کی قومی، اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کو پورا کرتا ہے اور وصول کنندہ کی مسلح افواج کو جدید بنانے اور قابل اعتماد دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں اس کی مسلسل کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں