برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے بدھ کو کہا کہ جرمنی افغانستان جنگ کا حصہ نہ بننے والے ملکوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ طالبان کے ساتھ براہ راست معاملات کئے بغیر مجرموں کو افغانستان بھیجنے کے طریقے تلاش کیے جاسکیں۔
وزیر داخلہ فیسر نے روزنامہ Neue Osnabruecker Zeitung کو بتایا،”ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں کہ ہم ایک بار پھر خطرناک اسلام پسندوں اور پرتشدد مجرموں کو افغانستان بھیج سکیں۔”
انہوں نے کہا، “ہم مختلف ملکوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ افغانستان بھیجنے کیلئے دوبارہ ملک بدری کے راستے کھولے جاسکیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “جرمنی کی سلامتی کے مفادات واضح طور پر مقدم ہیں۔”
2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد جرمنی نے افغانستان میں ملک بدری کو مکمل طور پر روک دیا تھا اور کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ ایک 25 سالہ افغان پر، خنجر سے حملے میں ایک پولیس افسر کی ہلاکت کے الزام کے بعد، اس طرح کی ملک بدری دوبارہ شروع کرنے کی بحث پھر سے ابھری ہے۔
مغربی جرمنی کے شہر مانہیم میں 31 مئی 2024 کو چاقو کے حملے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کے بعد میڈیا نے اطلاع دی تھی کہ نشانہ بننے والوں میں مذہب اسلام کا ایک نقاد بھی شامل تھا۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ مانہیم کے چوک پر ایک شخص نے چاقو سے حملہ کر کے کئی لوگوں کو زخمی کر دیا۔ اس کے بعد پولیس نے حملہ آور پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں وہ بھی زخمی ہوگیا۔
روزنامے’ڈیر سپیگل‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ حکام نے تیسرے ممالک جیسے کہ ازبکستان کے ذریعے ملک بدری کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔
سیاسی پناہ کے کیسز پر یورپی یونین کے باہر کے ملکوں میں پروسیسنگ کے امکانات کے ساتھ، علاقائی وزرائے داخلہ کے اجلاس میں یہ موضوع ایجنڈے میں سرفہرست رہے گا۔
فیسر کی وزارت نے تیسرے ممالک میں پناہ گزینوں کے پروسیسنگ مراکز کے امکانات پر ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ وہی طریقہ کار ہے جس طرح کے انتظامات اٹلی اور البانیہ یا برطانیہ اور روانڈا کے درمیان ہیں۔
دیگر کے علاوہ حزب مخالف کے قدامت پسندوں نے اس نظریے کی حمایت کی ہے.
تاہم رپورٹ میں،جسےاے ایف پی نے دیکھا ہے، کہا گیا ہے کہ بہت سے ماہرین نے ایسے کسی ماڈل کے “قانونی اور عملی نفاذ کے بارے میں تنقید کی ہے، اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔”
برلن نے امیگریشن کے معاملے پر سخت رویہ اختیار کیا ہے کیونکہ وہ انتہائی دائیں بازو کی پارٹی”Alternative for Germany” یا “اے ایف ڈی” کی مقبولیت کا مقابلہ کررہا ہے جس نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
“اے ایف ڈی” کو حالیہ یورپی پارلیمانی انتخابات میں، جرمنی میں چانسلر اولاف شولز کی سوشل ڈیموکریٹس پر سبوت حاصل ہوئی تھی اور وہ کرسچن ڈیمو کریٹس کے بعد دوسے نمبر پر آئی تھیں۔
حکومت میں شامل دیگر اعلیٰ عہدہ داروں نےلوگوں کو ملک بدر کر کے افغانستان بھیجنے کی تجدید کے بارے میں دباؤ پر افغانستان کی طرف ملک بدری کو دوبارہ شروع کرنے کے دباؤ پر سوال اٹھائے ہیں۔
وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ افغانستان ملک بدری “اہم آئینی اور سب سے بڑھ کر، سلامتی کے مسائل سے گریز نہیں کر سکتی۔”