سوات (فیاض ظفر) صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاحتی ضلع سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے الزام میں قتل ہونے والے سیالکوٹ کے سیاح کے بارے میں قرآنِ مجید کی بے حرمتی کا کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا۔
https://x.com/fayazzafar/status/1804188237252137075?t=Ax5IO_nvNP5dLzbTzggXng&s=19
سوات سے سینئر صحافی فیاض ظفر کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہوٹل مالک نے بتایا ہے کہ سلیمان نامی شخص 18 جون کو آیا تھا اور ہوٹل میں کمرا کرایہ پر لیا تھا۔ 20 جون کو دیگر کمروں میں رہائش پذیر لوگوں کے شور پر جب میں پہنچا، تو لوگوں کے ہاتھوں میں قرآنِ مجید کے جلے ہوئے اوراق تھے۔ وہ سلیمان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔ بعد میں جب اس نے دروازہ کھولا تو اس وقت پولیس آچکی تھی اور وہ ملزم کو اپنے ساتھ تھانہ لے گئی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہوٹل کے جس کمرے میں سلیمان رہ رہا تھا، اس کے قریب والے کمروں میں رہائش پذیر لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ کمرے میں مذکورہ شخص قرآنِ مجید کی توہین کا مرتکب ہوا ہے۔ اگر وہ کمرے میں یہ عمل کر رہا تھا، تو پھر قرآنِ مجید کے اوراق ان کے پاس کہاں سے آئے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد مساجد میں اعلانات کئے گئے۔ لاؤڈ سپیکر والی گاڑی سے بھی اعلانات ہوئے جس کے بعد ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس بارے میں تو صرف ہوٹل والوں کو پتہ تھا، تو مساجد میں اعلانات کس نے کئے اور پہلے سے ایک گاڑی پر لاؤڈ سپیکر کس نے باندھا تھا۔ اب مذکورہہوٹل پولیس نے سیل کردیا ہے، تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ان کمروں میں کون رہائش پذیر تھا۔
ایس ایچ او مدین اسلام الحق نے بتایا کہ جب میں ملزم کو تھانے لے آیا، تو میں نے ملزم سے پوچھا کہ تم قادیانی ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں الحمداللہ میں مسلمان ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تم نے قرآن مجید شہید کیا ہے، تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ کیوں قرآن شریف شہید کروں گا۔ اس دوران مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کیا، تو ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لئے میں اس کو اپنے کوارٹر لے گیا، لیکن مشتعل افراد میرے کوارٹر تک پہنچے اور ملزم کو اپنے ساتھ لے گئے۔
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں بھی ایک قرآن مجید شہید ہوا ہے۔ مدین پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے تھانے کے اندر 9 گاڑیوں اوردس موٹر سائیکلوں کو بھی نذرِ آتش کیا ہے۔ نذرِ آتش ہونے والی گاڑیوں میں ایک موٹر کار میں قرآنِ مجید تھا جو شہید ہوگیا۔
مظاہرین نے تھانے کے کچھ کمروں کو بھی آگ لگائی۔ ریجنل پولیس آفیسر کے مطابق ملزم کے خلاف ملک بھر میں صرف ایک ایف آئی آر درج ہے، جو اس کی والدہ نے اس کے خلاف 4 جولائی 2022ء کو تھانہ سول لائن میں کٹوائی تھی۔ جس میں سلیمان کی والدہ نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا ملیشیا سے واپس آیا ہے۔ گھر میں مجھے گالیاں دیتا ہے اورقتل کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔
مقامی لوگوں سے ملاقات میں معلوم ہوا کہ اس عمل میں ایک مذہبی گروہ ملوث تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مدین میں تمام مظاہرے مدین اڈّے میں ہوتے ہیں، لیکن ان مشتعل عوام نے سیالکوٹ کے اس شخص کو سور پل کے پار لے جاکر جلایا اور اس کو جلانے کے لئے پہلے سے لکڑیاں موجود تھیں۔
ہمارے ذرائع کے مطابق اس واقعے کی منصوبہ بندی چند دن قبل کسی اور جگہ کی گئی تھی اور اس عمل کے لئے جمعرات کا دن اس لئے منتخب کیا گیا تھا کہ اگلے دن جمعہ کو سوات بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوں، لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور سوات کو بچالیا۔ آج پورے دن کی تحقیقات سے کوئی واضح ثبوت نہیں ملے کہ قتل شدہ شخص نے قرآنِ مجید کو شہید کیا تھا۔ خدا نخواستہ اگر کوئی ایسا عمل کرے بھی، تو اس کو قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے اور ثبوت پولیس کو پیش کرنے چاہئیں۔ آج مدین میں پورا دن گزارنے کے باوجود ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ آج کل موبائل کا دور ہے، لیکن کسی نے سلیمان کے کمرے یا شہید قرآن مجید کی کوئی ویڈیو بنائی تھی اور نہ تصویر۔
توہین اسلام کے نام پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے
خیال رہے کہ پاکستان کے سابق حکمراں صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں توہین اسلام کے لیے سزائے موت کا قانون منظور کیے جانے کے بعد سے ملک میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق سن 1927 سے 1986ء کے درمیان پاکستان میں توہین اسلام کے صرف 14واقعات درج ہوئے تھے۔ لیکن سن 1987 سے 2022ء کے درمیان کم از کم 2120 افراد کے خلاف توہین اسلام کے کیس درج کیے گئے۔
گزشتہ ماہ سرگودھا میں ایک مسیحی کو قرآن کی توہین کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جو زخموں کی تاب نہ لا کر نو دن بعد چل بسی۔ سن 2022 میں خانیوال ضلع کے ایک گاؤں میں قرآن کی توہین کے الزام میں مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔