نئی دہلی (ڈیلی اردو/ بی بی سی) انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں منڈلا ضلع ہیڈکوارٹر سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر بھینسواہی گاؤں میں عیدگاہ ٹولہ ہے جہاں عید الاضحیٰ سے دو دن قبل تک 30 گھر ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر اور دیواروں کے ملبے میں بچے اور خواتین اپنا سامان تلاش کر رہے ہیں۔ بچے اپنے کھلونے ڈھونڈ رہے ہیں اور خواتین ملبے تلے دبے قیمتی سامان کی تلاش میں ہیں۔
روشنی بی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’کسی اور کو کسی اور کے جرم کی سزا مل رہی ہے۔ ہمارے گھر سے کچھ نہیں ملا۔ ہمارا گھر اچانک توڑ دیا گیا۔ کم از کم اگر وہ ہمیں آگاہ کر دیتے تو ہم اپنے کھانے پینے کی اشیا نکال لیتے۔
’اب چار دن ہو گئے ہیں ایک دانہ بھی نہیں ملا۔ ہمارے بچے بھوکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے شوہر کہاں ہیں اور اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم کہاں جائيں؟‘
روشنی بی کے شوہر بھی ان دس افراد میں شامل ہیں جنھیں پولیس نے ’مفرور‘ قرار دیا ہے اور ان پر 5000 روپے کے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
70 سالہ عبدالرفیق بستی کے دروازے پر اپنی جھونپڑی میں بیٹھے ہیں۔ وہ بیمار ہیں اور انھیں پیشاب کا تھیلا لگا ہوا ہے۔ وہ اس گروپ میں موجود واحد مرد ہیں۔
15 اور 16 جون کو اس بستی میں کیا ہوا؟ اس سوال پر اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی جھونپڑی میں تھا۔ پتہ نہیں کیا ہوا۔ میں، ایک بیمار آدمی ہوں، نہیں جانتا کہ یہاں کون کیا کرتا ہے۔‘
اس ماہ کی 16 تاریخ کو مبینہ تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران، بستی کے مسلم خاندانوں کے 11 گھروں پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔
منڈلا ضلع کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن مکانات کو مسمار کیا گیا ہے وہ 11 لوگوں کے گھر ہیں جن پر گائے ذبح کرنے اور گائے کی سمگلنگ کا الزام ہے۔
پولیس کا دعویٰ؟
منڈلا کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر راجیندر کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ پوری بستی غیر قانونی طور پر سرکاری زمین پر آباد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’تجاوزات ہٹانے کا عمل جاری ہے اور یہاں کے لوگوں کو بہت پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت صرف 11 افراد کے مکانات گرائے گئے ہیں یا تجاوزات ہٹائی گئی ہیں۔‘
ڈسٹرکٹ آفیسر سلونی سڈانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ 2022 سے ہی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بھینسواہی میں مسلمانوں کی آبادی ہے اور عید الاضحی کی وجہ سے صرف ان 11 لوگوں کے مکانات گرائے گئے ہیں جن کے گھروں پر پولیس نے چھاپہ مارا تھا کیونکہ ان کے خلاف گائے کی سمگلنگ اور گائے کے گوشت کی فروخت کے ثبوت ملے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں کا بھینسواہی جانا پرخطر ہے کیونکہ ان پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں۔ وہ تمام قانونی طریقہ کار پر عمل کرنے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ 15 جون کو مقامی تھانے کو بھینسواہی میں گائے کے گوشت کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد اضافی نفری طلب کر کے نین پور تھانہ انچارج اور سب ڈویژنل پولیس افسر نیہا پچیسیا کی قیادت میں چھاپہ مارا گیا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ تمام 11 ملزمان کے گھروں سے گائے کے ذبیحے کے شواہد ملے ہیں۔
منڈلا ضلع کے ایس پی نے کیا کہا؟
رجت سکلیچا منڈلا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گائے ذبح کرنے اور گائے کی سمگلنگ کے خلاف کی گئی کارروائی اور تجاوزات ہٹانے کی کارروائی مختلف چیزیں ہیں۔
سکلیچا کا کہنا ہے کہ ’چھاپے کے دوران ملزم کے گھروں کے مختلف کمروں میں ریفریجریٹرز میں گائے کا گوشت ملا تھا۔ اس کے علاوہ کاٹنے کے لیے استعمال ہونے والے سامان بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ کمروں کے اندر گائیں بھی بندھی ہوئی تھیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ گھروں کے پیچھے تقریباً 150 گائیں موجود تھیں، جنھیں پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
اپنے دفتر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘ہمیں وہاں کے مختلف گھروں سے اور گھروں کے باہر سے ہڈیوں کے ڈھیر بھی ملے ہیں۔ ایسے کئی گھر ہیں جہاں سے گائے کے گوشت کے علاوہ کھال اور چربی بھی برآمد ہوئی ہے۔ سامنے آنے والے ابتدائی شواہد کی بنیاد پر 11 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ گوشت کا نمونہ بھی جانچ کے لیے حیدرآباد بھیج دیا گیا ہے۔‘
پنڈرائی کے راستے پر منڈلا ضلعے سے آٹھ کلومیٹر پہلے دائیں طرف بھینسواہی ہے۔ اس میں تین ٹولے ہیں مسجد ٹولہ، کسانی ٹولہ اور عیدگاہ ٹولہ۔ عیدگاہ ٹولہ میں زیادہ تر قریشی برادری کے لوگ رہتے ہیں جبکہ کسانی ٹولہ قبائلی اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کا سرپنچ بھی قبائلی ہے۔
ہم نے پنچایت دفتر کے باہر سرپنچ کے شوہر رمیش ماروی سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ پنچایت کے لوگ پولیس کو گائے کی اسمگلنگ کی اطلاع دیتے رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ کارروائی بہت دیر سے ہوئی تاہم وہ بھی مکان کو گرانے کے حق میں نہیں ہیں۔
اس جگہ کی رہائشی ثمینہ بانو کا الزام ہے کہ پولیس نے جو کچھ بھی برآمد کیا ہے وہ واحد قریشی کے گھر سے برآمد ہوا ہے لیکن پولیس نے اس کیس میں دوسروں کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔
ان کی ہمشیرہ رضیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور شادی کے لیے جو چیزیں خریدی تھیں وہ مکان گرنے سے خراب ہو گئیں۔
گاؤں کی کچھ خواتین نے پولیس پر ان کے پیسے اور مرغیاں چھیننے کا الزام لگایا، جس کی پولیس حکام نے تردید کی ہے۔
قانونی ماہرین نے تجاوزات ہٹانے سے متعلق کیا کہا؟
ڈاکٹر اشوک مرسکولے منڈلا ضلعے سے کانگریس کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گائے کی سمگلنگ کے خلاف کارروائی ضروری ہے کیونکہ اس سے متعدد افراد کی عقیدت وابستہ ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کو اس میں ملوث لوگوں کو سخت سے سخت سزا دلوانے کے لیے عدالت میں کوششیں کرنی چاہییں لیکن اشوک مرسکولے بلڈوزر چلانے کے مخالف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر بلڈوزر ہی چلانا ہے تو مقدمات عدالت میں نہیں جانے چاہییں۔ عدالتیں بند کر دی جانی چاہییں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو حکم جاری کرنا چاہیے کہ اگر انتظامیہ تمام فیصلے خود ہی لے اور حکومت کے پاس تمام فیصلے لینے کے حق ہوں تو عدالتوں کو بند کر دیا جائے۔‘
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری اور انھیں سزا دلوانے تک انتظامیہ کا عمل درست ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے۔
منڈلا کے معروف وکیل منوج کمار ساگوانی نے قانونی دفعات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی سرکاری زمین پر ہے تو مدھیہ پردیش لینڈ ریونیو کوڈ کی دفعہ 248 کے تحت تحصیلدار سطح کے افسران انھیں نوٹس دیتے ہیں اور سماعت کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان تمام کارروائیوں کے بعد ہی تجاوزات ہٹانے کے لیے کارروائی کی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کا مکان یا جائیداد اچانک اور پیشگی اطلاع کے بغیر گرائی جائے تو یہ جائز نہیں۔
بھینسواہی کے بعض لوگ انتظامیہ کی کارروائی کے حق میں؟
نین پور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی بھی ہے۔ یہاں ایک بڑی مسجد ہے جس کے امام شیخ ظفر منصوری ہیں۔
عصر کی نماز کے بعد نمازی ایک ایک کر کے مسجد سے باہر نکل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ سے بات چیت بھی ہوئی۔ منصوری نے گفتگو کے دوران کہا کہ بھینسواہی میں جس طرح کا کام ہو رہا ہے ’تمام مسلمان اس پر شرمندہ ہیں۔‘
عبدالوہاب علی کے مطابق بھینسواہی میں انتظامیہ کی جانب سے کی گئی کارروائی ’درست‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ان چند لوگوں نے پورے معاشرے کا نام بدنام کیا ہے۔ ہندوؤں کے عقیدے کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے۔ ہم اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انتظامیہ نے جو کیا وہ درست تھا اور کئی سالوں سے اس کی ضرورت تھی۔‘
لیکن انتظامی افسران کے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ گرائے جانے والے 11 گھروں میں سے تین مرکزی حکومت کی ہاؤسنگ سکیموں کے تحت بنائے گئے تھے۔
ان میں سے ایک آسیہ کا گھر ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’ہمارے پاس اندرا آواس یوجنا کے تحت دو مکانات تھے اور جو حکومت اس وقت ریاست میں ہے اس نے یہ مکانات الاٹ کیے تھے۔‘
حکومت کی جانب سے جواز
حکومت اپنی کارروائی کو جواز بنا رہی ہے۔ انتظامی حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کے صرف وہی گھر گرائے گئے ہیں جو غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے جن کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر راجندر کمار سنگھ نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ جن لوگوں کے مکانات مسمار کیے گئے ان کو اسی کارروائی کے تحت مسمار کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’فی الحال ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس لیے تجاوزات ہٹانے کے لیے کارروائی کی گئی۔ وہاں ہاؤسنگ سکیم کے گھر بھی تھے، ایسی کوئی حقیقت ہمارے علم میں نہیں آئی۔ چلیں یہ بھی مان لیں کہ یہ سرکاری سکیم کا گھر ہے تو وہاں سے کوئی مجرمانہ سرگرمی نہیں ہو سکتی؟‘
پولیس دستاویزات اور مقامی لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بھینسواہی میں گذشتہ کئی دہائیوں سے گائے کی سمگلنگ کے معاملات سامنے آ رہے ہیں۔
ایک پولیس اہلکار جو 2016 میں اس جگہ چھاپے کے لیے گئے تھے انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں یہ سوال پولیس انتظامیہ پر بھی ہے کہ اگر اس طرح کا غیر قانونی کاروبار چل رہا تھا تو اسے کس کی سرپرستی حاصل تھی؟
منڈلا سپرانٹنڈنٹ آف پولیس کا کہنا ہے کہ اب وہ اس معاملے کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انتظامیہ کا عدالتی حکم کے بغیر بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مکانات گرانے کا فیصلہ درست ہے؟