ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے/تاس) روس کے مسلم اکثریتی جمہوریہ داغستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے میں پولیس اہلکاروں، عیسائی پادری سمیت 22افراد ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔
ری پبلک آف داغستان کے گورنر سرگئی ملیکوف نے ایک ویڈیو بیان میں حملے اور اموات کی تصدیق کی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ داغستان میں دو مختلف شہروں میں مسلح افراد نے دو آرتھوڈوکس چرچوں، یہودیوں کی ایک عبادت گاہ (سینیگاگ) اور پولیس کی چوکی پر فائرنگ کی۔
داغستان روس کا مسلم اکثریتی علاقہ ہے جو ماضی میں شورش کا شکار رہا ہے۔ روس کی انسدادِ دہشت گردی کمیٹی نے داغستان میں ہونے والے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔
اتوار کو حملوں میں ہونے والی اموات کے بعد خطے میں پیر، منگل اور بدھ کو یومِ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
داغستان کی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ بحیرہ کیسپین کے کنارے واقع شہر ڈیربنٹ میں ایک چرچ اور ایک یہودی عبادت گاہ پر مسلح گروہ نے حملہ کیا۔
سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ان حملوں میں دونوں مذاہب کی عبادت گاہوں میں آگ لگ گئی۔
ان حملوں کے بعد داغستان کے مرکزی شہر مخاچ میں ایک چرچ اور پولیس چوکی پر مسلح افراد کے حملے کی رپورٹس سامنے آئیں۔
ان حملوں کے فوری بعد ہی حکام نے اس خطے میں انسدادِ دہشت گردی کا آپریشن شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کمیٹی کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے جوابی کارروائی میں پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ جب کہ داغستان کے گورنر نے چھ حملہ آوروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
ان متضاد دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ یہ واضح ہو سکا کہ دونوں شہروں میں ہونے والی کارروائیوں میں کتنے حملہ آور ملوث تھے۔
حملوں کے بعد کسی گروہ یا تنظیم نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے حملوں میں ملوث عناصر کی نشان دہی کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
روس کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘تاس’ کی ایک رپورٹ میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ داغستان کے ایک سرکاری عہدیدار کو سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا ہے جس کے بارے میں شبہہ ہے کہ اس کے دو بیٹے بھی ان حملوں میں ملوث تھے۔
داغستان کے گورنر سرگئی ملیکوف نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ خطے میں صورتِ حال اداروں کے کنٹرول میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں کی تحقیقات اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک عسکریت پسندوں کے تمام سلپینگ سیلز کی نشان دہی نہیں ہو جاتی۔
روس میں حالیہ دونوں میں عوامی مقامات پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دو ماہ قبل مارچ میں دارالحکومت ماسکو کے قریب ایک کنسرٹ میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 145 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش سے منسلک ایک شدت پسند گروہ نے قبول کی تھی۔
اس وقت روسی حکام نے اس حملے کو یوکرین سے جوڑ دیا تھا۔ البتہ اس حوالے سے روس نے کوئی شواہد پیش نہیں کیے تھے۔ یوکرین نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔