یروشلم (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت نے منگل کو اپنے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ریاست کو انتہائی کٹر یہودی مردوں کو فوجی خدمات کے لیے بھرتی کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ممکنہ طور پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکمران اتحاد کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔
سیاست سے منسلک اس معاملے پر ہائی کورٹ آف جسٹس نے ایک ایسے موقع پر فیصلہ سنایا ہے جب الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی مردوں کو فوجی خدمات کے لیے طلب کرنے سے متعلق اپیلوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انتہائی قدامت پسند یہودی خود کو فوجی خدمات سے بچا لیتے ہیں۔
کٹر یہودیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے مطالبات میں ایک ایسے وقت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جنگ جاری ہے اور لبنان کی سرحد پر بھی جنگ چھڑنے کے امکانات موجود ہیں، جس کے لیے اضافی فوجیوں کی ضرورت ہے۔
عدالت کے فیصلے میں یشیوا کے طالب علموں کے بارے میں کیا ہے؟
یشیوا یہودی مذہبی درسگاہیں ہیں جہاں مردوں کو مذہبی معاملات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ فوج میں لازمی بھرتی کے قانون کے باوجود یشیوا کے طالب علموں کو فوجی خدمات کے لیے طلب نہیں کیا جاتا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی مناسب قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں انتظامیہ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے قانون کا یشیوا کے طالب علموں پر اطلاق نہ کرنے کا حکم دے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہودی مذہبی مدارس کے طلبا کو فوجی خدمات سے استثنیٰ قرار دینے کے قانون کی عدم موجودگی میں ریاست کو قانون کے نفاذ کے لیے کام کرنا چاہیے۔
عدالت کے حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت یشیوا کے ان طلبا کی مالی امداد روک دے جو فوجی خدمات سے خود کو بچاتے ہیں۔
عدالت کا یہ فیصلہ سول سوسائٹی کے ان گروپوں کے حق میں ہے جو الٹرا آرتھوڈوکس یعنی کٹر اور راسخ العقیدہ یہودی مردوں کو لازمی فوجی بھرتی کے قانون کے تابع لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
الٹڑا آرتھوڈوکس یہودی کون ہیں؟
راسح العقیدہ کٹڑ یہودی، مذہبی رسم و رواج کی سخت تشریح کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ الگ تھلگ رہتے ہیں اور بیرونی دنیا سے بہت کم میل جول رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ تر اسرائیل میں ہیں تاہم دیگر مقامات پر بھی محدود تعداد میں موجود ہیں۔
وہ اسرائیل کی کل آبادی کا تقریباً 13 فی صد ہیں۔ اسرائیل کی آبادی کا تخمینہ تقریباً ایک کروڑ ہے، جس میں ان کی تعداد 13 لاکھ کے قریب ہے۔
اسرائیل میں یہودی مردوں کے لیے فوجی خدمات لازمی ہیں جبکہ مذہبی خواتین کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے۔
اسرائیل میں یہودی مردوں کے لیے فوجی خدمات انجام دینا لازمی ہے جب کہ مذہبی خواتین کو استثنیٰ حاصل ہے۔
الٹرا آرتھو ڈوکس کمیونٹی نے تاریخی طور پر مذہبی مدارس میں تعلیم کے حصول کے لیے فوجی بھرتی سے چھوٹ حاصل کر رکھی ہے۔ یہ انتہائی کٹر یہودی کمیونٹی خود کو اسرائیل کی شناخت کے تحفظ کے طور پر پیش کرتی ہے۔
اس کمیونٹی کو نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں نمائندگی حاصل ہے۔
نیتن یاہو کی حکومت کو کیا خطرہ ہے؟
اسرائیل کی حکومت کٹڑ یہودی کمیونٹی کے مردوں کو فوجی بھرتی سے چھوٹ دلانے کے لیے قانون سازی کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن ملک میں کئی دہائیوں سے جاری سیاسی کشیدگی کے باعث اس عمل کو آگے نہیں بڑھایا جا سکا ہے۔
سن 2018 میں نیتن یاہو کی قیادت کی مخلوط حکومت گرنے کا سبب بھی لازمی فوجی بھرتی میں کٹر یہودیوں کا معاملہ تھا جس کے بعد سے سیاسی تعطل جاری ہے۔
نیتن یاہو کی اتحادی حکومت میں کٹر یہودیوں کی نمائندگی کرنے والی دو جماعتیں شامل ہیں جو راسخ قوم پرستوں کے ساتھ یشیوا طلبا کی فوج میں لازمی بھرتی کی مخالف ہیں۔ جس کی وجہ سے عدالت کا یہ فیصلہ نتین یاہو کی اتحادی حکومت کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے گزشتہ سال ایک اصلاحاتی پیکج کے ذریعے عدالت کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی، جس پر احتجاج ہوا تھا۔ اس ماہ لیکوڈ پارٹی نے ایک بل پیش کیا ہے جس کا مقصد لازمی فوجی بھرتی میں کٹر اور راسخ العقیدہ یہودیوں کو لازمی بھرتی سے استثنٰی دینے سے متعلق رعائتیں حاصل کرنا ہے۔
اسرائیل کی 120 نشستوں کی اسمبلی میں دو کٹر یہودی پارٹیوں کے 18 ارکان ہیں۔
عدالتی فیصلے پر ردعمل
اس فیصلے کے بعد لیکوڈ پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ ہائی کورٹ آف جسٹس جس معاملے پر 76 برسوں سے گریز کرتا رہا ہے، اس نے ایک ایسے موقع پر فیصلہ دیا ہے جب ایک تاریخی مسودہ قانون اپنی تکمیل کے قریب ہے۔
اسرائیلی حزب اختلاف نے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔