اسلام آباد (ش ح ط) صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں دو شدت پسند نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تنازع پر ایک 60 سالہ شیعہ شخص کو چاقوؤں کے وار سے ہلاک کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق گجرات کے نواحی گاؤں کنجاہ کی چک چوہڈو کے امام مسجد قاری فیض الحسن کے بیٹے قاری ریحان میانہ کا اسی گاؤں کے رہائشی سید نذیر حسین شاہ کے ساتھ مبینہ طور پر غدیر کے مسئلہ پر معمولی تلخ کلامی ہوئی۔
مقامی ذرائع کے مطابق قاری ریحان میانہ اور اسکے ساتھی طیب میانہ نے 60 سالہ شیعہ شخص پر پے در پے چاقوؤں سے حملے کیے اور موقع سے فرار ہوگئے۔ زخمی شخص کو تشویشناک حالت میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کنجاہ منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کر کے لاش لواحقین کے حوالے کر دی۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ایک ٹیم نے وقوعہ سے شواہد بھی اکٹھے کئے ہیں۔ تذیر شاہ کے بھائی شبیر حسین شاہ کی شکایت پر تین ملزمان ریحان، اس کے چچا اور والد
قاری فیض الحسن میانہ کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302، 34 اور 109 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم مذہبی جنونی لگتا ہے۔ جبکہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کا تعلق شدت پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔
غدیر کیا ہے تحریر علامہ آفتاب حسین جوادی
آقائے دو جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے 10 ہجری کو آخری حج کا ارادہ فرمایا۔ لوگوں میں منادی کرادی گئی تو تمام مسلمان حج کےلیے جمع ہوئے۔ آپؐ نے ہجرت کے بعد اس حج تک کوئی دوسرا حج ادا نہیں فرمایا تھا۔
جب رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مناسک حج ادا کرکے واپس ہوئے تو 18 ذی الحجۃ بروز جمعرات مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام غدیر خم پر پہنچے تو وہاں جناب جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر نازل ہوئے۔
یٰاایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یھدی القوم الکفرین۔
’’اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا‘‘ (سورہ المائدۃ آیت 67)
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ غدیر خم کے میدان میں پہنچے ہمارے درمیان منادی کرائی گئی ’’الصلوٰۃ جامعہ‘‘ اور دو درختوں کے پیچھے حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کےلیے پردہ بنایا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے فوراً بعد خطبہ شروع کیا اورحضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو ابلی۔ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ
کہ کیا میں تمہاری جانوں سے بھی زیادہ ان پر حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ تمام صحابہ کرامؓ نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کے ساتھ عداوت رکھ جو علیؑ سے عداوت رکھے۔
محدث ابن شاہین بغدادی متوفی 385 ھ نے اپنی کتاب ’’شرح مذاہب اہل السنۃ‘‘ صفحہ 103 پر لکھا ہے کہ کم و بیش سو صحابہ کرامؓ جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، نے خطبہ غدیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ثابت ہے میں (ابن شاہین) اس حدیث میں کوئی جرح نہیں پاتا۔ حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں دوسرا کوئی ایک بھی شریک نہیں ہے۔ مزید برآں حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ غدیر سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا و آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 3)
اس حدیث کی سند صحیح ہے (ملاحظہ ہو تاریخ بغداد جلد 8 ص 290، الامالی للشجری جلد 1 ص 42، 146)
ذیل میں ہم حدیث غدیر کے تواتر میں اہل سنت کی تحقیقات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ علامہ ذہبی مشہور مورخ ابن جریر الطبری متوفی 310ھ کی کتاب ’’الولایۃ‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں: قلت رأیت مجلداً من طرق (حدیث غدیر) لابن جریر فاند ھشت لہ ولکثرۃ لتلک الطرق
میں کہتا ہوں کہ ابن جریری طبری کی حدیث غدیر کے کتاب ’’الولایۃ‘‘ کو میں نے دیکھا ہے کہ جس میں انہوں نے حدیث غدیر کے اسانید و طریق کو جمع کیا ہے تو میں کثرت طرق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ ( تذکرۃ الحفاظ جلد 2 صفحہ 713 طبع حیدرآباد دکن)
اس سلسلے میں شمس الدین ذہبی نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’طرق حدیث من کنت مولاہ‘‘ کے نام سے تحریر کی ہے، جو عرب دنیا سے شایع ہوچکی ہے اور راقم السطور کے ذخیرہ کتب میں موجود ہے۔ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774 ھ نے ’’البدایہ و النھایہ جلد ۵ صفحہ 153، مطبعۃ السعادہ مصر میں اس حدیث کو کئی اسانید سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
وصدر الحدیث متواتر أتیقن ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قالہ واما اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ، فذیادۃ قویۃ الاسناد،
حدیث غدیر کا پہلا حصہ، من کنت مولاہ فعلی مولاہ، متواتر ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے واقعی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں ایسا فرمایا ہے اور اللھم وال من والاہ کی اسناد بھی قوی ہیں۔
علامہ شمس الدین ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ جلد 8 صفحہ 335 پر ’’مطب بن زیاد‘‘ کے حالات میں لکھا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ کا بیان ہے کنا بالجحفۃ بغدیر خم فخرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من خباء او فُسطاط فاشار بیدہ ثلاثا فاخذ بیدہ علی رضی اللہ عنہ فقال من کنت مولاہ فعلی مولاہ، ھٰذا حدیث حسن عال جداً و متنہ فمتواتر
2۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے ’’قطف الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ‘‘ صفحہ 277 طبع مکتب اسلامی دمشق 1985 میں اسے متواتر کہا ہے۔ علامہ محمد عبدالرؤف منادی متوفی 1031ھ نے حدیث کی معروف کتاب الجامع الصغیر کی شرح میں ایک کتاب فیض القدیرکے نام سے ضخیم جلدوں میں تحریر کی ہے، اس کی جلد 6 صفحہ 282 حدیث 9000 کی شرح میں کہا ہے وقال السیوطی حدیث متواتر۔ علامہ سیوطی نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
3۔ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ نے ’’مرقاۃ شرح مشکوٰہ جلد 11 صفحہ 342 طبع مکتبہ امدادیہ ملتان‘‘ میں لکھا ہے والحاصل ان ھٰذا الحدیث صحیح لا مریۃ فیہ بل بعض الحفاظ عدہ متواتراً اذ فی روایۃلاحمدانہ سمعہ من النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ثلاثون صحابیاً و شھدو ابہ لعلی لما نوزع ایام خلافتہ
بحث کا حاصل یہ ہے کہ بلاشک و شبہ یہ حدیث صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر شمار کیا ہے۔ احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق اسے تیس (30) صحابہ کرام ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے سنا ہے۔ ان صحابہ ؓ نے حضرت علیؑ کے ایام خلافت میں اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔
4۔ حافظ ابوالخیر محمد بن محمد ابن الجزری الدمشقی متوفیٰ 660ھ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ھذا حدیث حسن من ھذا الوجہ، صحیح من وجوہ کثیرۃ، تواتر عن امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ وھو متواتر ایضا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ حدیث اس سند سے ’’حسن‘‘ ہے بہت سی سندوں سے صحیح ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علی ؓ سے تواتر کے ساتھ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی متواتر ہے (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب صفحہ3، مطبوعہ میریہ مکہ مکرمہ) نیز موصوف صفحہ 4 پر مزید لکھتے ہیں اور صحابہ کی جماعت سے یہ حدیث صحیح سند سے نقل ہوئی ہے۔ ان میں ایسے حضرات بھی ہیں جن کی خبر سے قطعیت حاصل ہوتی ہے اور یہ ثابت ہے کہ یہ حدیث پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن اس خطبہ میں ارشاد فرمائی تھی جو آپ نے حضرت علی ؑ کے حق میں 10 ہجری 18 ذی الحج کو حجۃ الوداع سے واپسی پر دیا تھا۔
5۔ مشہور محدث محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی صاحب سبل السلام شرح بلوغ المرام متوفی 1184ھ حدیث متواتر کے احکام و شرائط بیان کرتے ہوئے خطبہ غدیرکے متعلق رقمطراز ہیں: حدیث غدیر خم رواہ جماعۃ من الصحابۃ و تواتر النقل بہ حتی دخل حد التواتر و ذکر محمد بن جریر حدیث غدیر خم و طرقہ من خمسۃ و سبعین طریقاً وافرد لہ کتاباً سماہ ’’کتاب الولایۃ‘‘ و صنف الذھبی جزأ و حکم بتواترہ۔
حدیث غدیر کو صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے اور ہر زمانے میں تواتر سے نقل ہوتی آرہی ہیں، یہاں تک کہ حد تواتر کو پہنچ گئی ہے۔ حافظ ابن جریر طبری نے حدیث غدیر خم کو 75 سندوں سے ذکر کیا ہے اور موضوع پر ’’الولایۃ‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے اور علامہ ذہبی نے بھی حدیث غدیر پر ایک رسالہ تصنیف کیا اور اس پر متواتر کا حکم لگایا۔
(اسبال المطر علیٰ قصب السّکر صفحہ 27 طبع دارالسلام الریاض) اسی طرح اپنی دوسری شہرہ آفاق کتاب ’’الروضۃ الندیہ شرح القصیدۃ العلویہ‘‘ صفحہ 47 مطبع انصاری دہلی 1323ھ میں شرح و بسط کے ساتھ اسے متواتر ثابت کیا ہے۔
6۔ حافظ شیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الشافعی متوفی 1162ھ نے اس کے متعلق کہا: فالحدیث متواتر او مشہور ’’یہ حدیث متواتر ہے یا مشہور ہے‘‘
(کشف الخفاء و مزیل الالباس جلد 2 صفحہ 274 حدیث 2591 طبع مکتبہ القدوسی قاہرہ)
7۔ قاضی سناء اللہ عثمانی پانی پتی متوفی 1225ھ اپنی تفسیر مظہری آیت ولایت انما ولیکم اللہ۔ الخ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وقدبلغ ھٰذا الحدیث مبلغ التواتر رواہ جمع من المحدثین فی الصحاح والسنن و المسانید۔۔۔۔ الخ
حدیث غدیر حد تواتر تک پہنچ چکی ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے کتب صحاح، کتب سنن اور کتب مسانید میں اس کو روایت کیا ہے۔
(تفسیر مظہری جلد 4 صفحہ 134 طبع ندوۃ المصنفین دہلی) اسی طرح موصوف نے اپنی دوسری کتاب ’’السیف المسلول‘‘ صفحہ108 مطبع احمدی دہلی 1268ھ میں کہا ہے: حدیث من کنت مولاہ درجۃ صحت بلکہ بدرجہ تواتر رسیدہ ’’حدیث من کنت مولاہ صحت کے درجہ پر ہے بلکہ تواتر کے درجہ پر پہنچی ہوئی ہے‘‘۔
8۔ علامہ کتانی نے ’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر‘‘ صفحہ 206 طبع مکتبۃ المعارف الریاض 1995 میں حدیث غدیر کو متواتر قرار دیا گیا ہے۔
9۔ ناصر الدین الالبانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ جلد 4 صفحہ 344 حدیث 1750، طبع المکتب الاسلامی بیروت میں بڑی تصریح کے ساتھ اس حدیث کا تواتر ثابت کیا ہے۔
10۔ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ’’ازالۃ الخفأ جلد 2 صفحہ 260 باب ماثر الامام علی بن ابی طالب مطبع صدیقی بریلی میں اس حدیث کو متواتر کہا ہے۔
11۔ نواب صدیق حسن خان نے تحریر کیا ہے حدیث غدیر را جماعتی از صحابہ راوی است و نقل برآن متواتر شدہ تا آنکہ داخل حدتواتر گشتہ و محمد ابن جریر الطبری برائے حدیث غدیر ہفتاد و پنج طرق ذکر کردہ و آن را در کتابے مفرد درج نمودہ نامش کتاب الولایۃ نہادہ و حافظ ذہبی جزئے در طرق وے نگاشتہ و حکم بتواترش فرمودہ و ابوالعباس ابن عقدہ حدیث غدیر را بہ یک صد و پنجاہ طریق آوردہ و کتابے مقرر نگاشتہ۔
حدیث غدیر کو صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور اس کی نقل و روایت حد تواتر میں داخل ہوگئی ہے۔ محمد ابن جری طبری نے حدیث غدیر کے 75 طرق ذکر کیے ہیں اور اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے جس کا نام کتاب الولایۃ ہے۔ حافظ ذہبی نے بھی ایک رسالہ اس حدیث کے طرق میں لکھا ہے اور اس میں اس حدیث کے متواتر ہونے کا حکم لگایا ہے۔
12۔ ابوالعباس ابن عقدہ نے اس حدیث کو 150 سندوں سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے۔ (منہج الوصول الیٰ اصطلاح احادیث الرسول صفحہ 12، 13، 93 مطبع شاہجہانی بھوپال) اور دیگر بہت سے نامور علماء نے اس حدیث کو صحیح و معتبر کہا ہے جن میں سے امام ترمذی نے اپنی ’’سنن‘‘ جلد 2 صفحہ 213، طبع دہلی، امام غزالی نے ’’سر العالمین کشف ما فی الدارین‘‘ صفحہ 9، المقالۃ الرابعۃ، طبع بمبئی، امام نووی نے ’’فتاوی الامام النووی‘‘ صفحہ 151، طبع دارالفکر دمشق، ابن حجر ہیتمی مکی نے ’’صواعق محرقہ‘‘ صفحہ42،122 طبع قاہرہ، علامہ مرزا محمد معتمد خان بدخشی نے کتاب ’’نزل الابرار‘‘ صفحہ 21 طبع بمبئی، علامہ برہان الدین حلبی نے ’’سیرت حلبیہ‘‘ جلد 3 صفحہ 308 اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‘‘ جلد 8 صفحہ 570 وغیرہ نے اس حدیث پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔
لہٰذا یہ آپ کا بہت ہی طویل وعریض آخری خطبہ تھا کہ جس میں مسلمانوں کی باہمی وحدت ویگانگت کی اہمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اگر ہم تمام مسلمان اس خطبہ غدیر کی روشنی سےاپنی زندگیوں کو منور کریں تو ہمارا معاشرہ صلح و سلامتی اور امن و آشتی کا مرقع بن سکتا ہے۔