سکر (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) جنوبی امریکہ کے ملک بولیویا کے فوجی جنرل کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی مبینہ کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بولیویا کے فوجی سربراہ کی قیادت میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر فوجی گاڑیوں نے صدارتی محل کا رخ کیا تو ملک کے صدر نے فوج کے اس عمل کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش قرار دیا۔
صدارتی محل کی جانب فوج کی پیش قدمی کے بعد صدر لوئس آرس نے فوری طور پر ایک جنرل کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا۔
حکومت کا تختہ الٹنے کی اطلاعات صدر لوئس آرس کے حامیوں کو ملی تو وہ صدارتی محل کے سامنے چوراہے پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔
بولیویا میں لگ بھگ تین گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس بحران میں نئے فوجی سربراہ نے فوج کو پیچھے ہٹنے اور واپس اپنی بیروکوں میں جانے کے احکامات دیے۔
اسی اثنا میں مبینہ بغاوت کرنے والے آرمی چیف جنرل کھوان کھوسے زونیگا کو صدارتی محل کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد نئے آرمی چیف کی ہدایات کی روشنی میں فوجی اہلکار اپنی گاڑیوں میں واپس بیرکوں میں لوٹ گئے اور اس طرح شورش کا خاتمہ ہوا۔
فوج کی واپس اپنی بیرکوں میں جانے کی خبر سننے پر صدر کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ ملک کے پرچم ہاتھوں میں تھامے سڑکوں پر نعرے بازی کرتے رہے۔
بولیویا کے اٹارنی جنرل نے مبینہ بغاوت کے مرتکب آرمی چیف کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
حکومتی وزرا نے تصدیق کی ہے کہ آرمی چیف کے علاوہ نیوی کے ایڈمرل کھوان آرنز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
حکومت کے وزیر کارلوس ایدرودو کاستیلو نے ایک پریس کانفرنس میں آرمی چیف کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی سربراہ کی قیادت میں ایک گروہ کا مقصد جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔
بولیویا میں کئی ماہ سے سیاسی کشمکش جاری تھی اور فوجی بغاوت اس وقت سامنے آئی جب ملک کے موجودہ صدر لوئس آرس اور 2019 تک ملک کے صدر رہنے والے بائیں بازو کے ایوو مورالیس کے درمیان حکومتی جماعت کو کنٹرول کرنے کی رسہ کشی جاری تھی۔ اس رسہ کشی کے دوران ملک میں اقتصادی بحران شدید ہو گیا تھا۔
گرفتاری سے قبل آرمی چیف کی میڈیا سے گفتگو
حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کرنے والے آرمی چیف جنرل کھوان کھوسے زونیگا نے گرفتاری سے قبل میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج سیاسی رہنماؤں کے آپس کے اختلافات سے تھک چکی ہے اور جمہوریت کی بحالی کی خواہش مند ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنما ملک کو تباہ کر رہے ہیں اور ایک اعلیٰ طبقہ ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے جب کہ فوج کئی برس سے ملک کے عوام کی مشکلات دیکھ رہی ہے۔
فوجی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ مسلح افواج ملک میں جمہوریت کی بحالی اور بولیویا کو حقیقی جمہوری ملک بنانے کی خواہش مند ہیں۔
مبینہ فوجی بغاوت کا آغاز کیسے ہوا؟
بولیویا میں دوپہر کے اوقات میں جب دارالحکومت لاپاز کی گلیاں فوجی اہلکاروں سے بھرنا شروع ہوئیں تو اس کے فوری بعد صدر لوئس آرس نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ فوج کی اس طرح تعیناتی ایک بے قاعدہ عمل ہے۔
کچھ ہی دیر بعد صدر سمیت بعض دیگر سیاسی رہنماؤں نے ملک میں فوج کی بغاوت اور حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا اعلان کیا۔
بولیویا کے ٹیلی ویژن پر چلنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدر لوئس آرس اپنے وزرا کے ہمراہ حکومتی محل میں موجود ہیں اور وہاں جنرل زونیگا بھی ہیں۔ صدر آرمی چیف کو کہہ رہے ہیں کہ وہ بحیثیت ان کے کپتان کے حکم دے رہے ہیں کہ وہ فوجی اہلکاروں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیں۔
صدرارتی محل میں صدر اور آرمی چیف کی اس گفتگو کے ایک گھنٹے کے بعد صدر نے فوج، بحریہ اور فضائیہ کے نئے سربراہان کا اعلان کر دیا۔
فوج کے نئے سربراہ کے اعلان کے ساتھ ہی فوجی اہلکار اپنی بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہو کر واپس روانہ ہوئے تو پولیس اس دوران حکومتی محل کا گھیراؤ کر چکی تھی۔
صدر لوئس نے خود فوجی چڑھائی کا کہا تھا، آرمی چیف کا دعویٰ
تین گھنٹے کی کشمکش کے بعد آرمی چیف نے گرفتاری سے قبل میڈیا سے گفتگو میں الزام لگایا کہ صدر لوئس نے خود انہیں صدارتی محل پر چڑھائی کا کہا تھا تاکہ انہیں سیاسی فائدہ ہو۔
فوجی جنرل کے بقول صدر نے انہیں کہا تھا کہ اس وقت صورتِ انتہائی خراب اور بہت مخدوش ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔
بولیویا کے وزیرِ انصاف ایون لیما نے گرفتار آرمی چیف کے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جنرل زونیگا فریب کا سہارا لے رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے عمل کو درست ثابت کریں۔ ان کے بقول انہیں اپنے عمل کے لیے انصاف کا سامنا کرنا ہوگا۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں وزیرِ انصاف کا کہنا تھا کہ جنرل زونیگا کو جمہوریت اور آئین پر حملہ کرنے کے جرم میں عدالت سے کم از کم 15 سے 20 برس قید کی اپیل کی جائے گی۔
صدر لوئس آرس کا کہنا تھا کہ وہ فوجی اہلکار جو منتخب حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے انہوں نے اپنی فوجی وردی کو داغدار کیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق جب بولیویا میں یہ بحران شروع ہوا تو شہریوں نے گھروں میں کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ کرنا شروع کر دی تھیں۔
اکثر افراد کو اندیشہ تھا کہ یہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔ بحران ختم ہونے کے بعد صدارتی محل کے باہر خطاب میں ملک کے نائب صدر ڈیوڈ چوکوانکا نے کہا کہ بولیویا کے عوام اب کبھی بغاوت کی اجازت نہیں دیں گے۔