برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) جرمن حکومت نے سوشل میڈیا پر ‘لائکس’ سمیت ‘دہشت گردی کے جرائم’ کو فروغ دینے والوں کو ملک بدر کرنے کے ایک مسودہ قانون سے اتفاق کرلیا ہے۔ اس قانون کا مقصد اسلام پسندوں اور سامیت کے خلاف نفرت انگیز جرائم کا مقابلہ کرنا ہے۔
جرمنی کی وزارت داخلہ نے کہا کہ جرمن حکومت کے وزراء بدھ کے روز ایسے افراد کی ملک بدری کے عمل کو آسان بنانے کے لیے قانون سازی کے ایک مسودے پرمتفق ہو گئے، جو دہشت گردی کی حمایت کا اظہار کرتے ہوں۔
یہ اقدام سوشل میڈیا پر ایسے نفرت انگیز پوسٹس کے ردعمل میں سامنے آیا ہے جن میں اسرائیل پر حماس کے حملے اور دیگر دہشت گردی کے واقعات پر خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔
ملک بدری قانون کی مجوزہ تبدیلی کیا ہے؟
مسودہ قانون کسی ایسے شخص کی ملک بدری کی اجازت دے گا، اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص نے دہشت گردی کے کسی جرم کی حمایت کی تھی۔ اب کسی فرد کو ملک بدر کرنے کے لیے مجرمانہ سزا کی ضرورت نہیں ہو گی۔
مسودہ قانون کے مطابق اب صرف ایسے شخص کو ہی دہشت گردی کی حمایت یا تائید کا مجرم قرار نہیں دیا جائے گا جس نے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پوسٹ کیا ہو بلکہ یو ٹیوب، انسٹا گرام یا ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارم پر “لائیک” یا دیگر مثبت ردعمل کے ساتھ نفرت انگیز پوسٹ کو نشان زد کرنے والے بھی مجرم قرار پائیں گے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے منہائم میں اسلام مخالف ریلی پر چاقو کے مہلک حملے کے بعد، جس میں ایک پولیس اہلکار کی موت ہو گئی تھی، افغانستان اور شام جسے ممالک کو ملک بدری کی اجازت دیتے ہوئے قانون میں تبدیلی کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو فروغ دینا اور اس کی تعریف کرنا، “متاثرین، ان کے خاندانوں اور ہمارے جمہوری نظام کے منہ پر طمانچہ” ہے۔
وزیر داخلہ نینسی فریزر نے تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہو ئے کہا کہ برلن “اسلام پسندوں اور سامیت مخالف آن لائن نفرت انگیز جرائم کے خلاف سخت کارروائی کررہا ہے۔”
انہوں نے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،”کوئی بھی شخص جس کے پاس جرمن پاسپورٹ نہیں ہے، اور یہاں وہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی تعریف کرتا ہے، اسے جیسے بھی ممکن ہو ملک سے نکال دیا جانا چاہئے۔”
اظہار رائے کی آزادی پر تشویش
مسودہ قانون، جسے ابھی پارلیمان سے منظور ہونا باقی ہے، میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کی آن لائن تعریف، جو انتہاپسندوں اور پرتشدد مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں،تشدد کے ماحول کو ہوا دیتے ہیں۔”
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ قانون آزادی اظہار پر حد سے زیادہ پابندی لگاتا ہے اور کہا کہ یہ اقدامات آمرانہ حکومتوں کے استعمال کردہ حربوں کی طرح ہیں۔
پارلیمنٹ میں سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کی کلارا بنگر نے کہا کہ یہ اقدام تشویش ناک رجحان کی انتہا ہے۔
بنگر کا کہنا تھاکہ ترکی او رروس جیسے ممالک میں سوشل میڈیا پر سادہ سا ” لائک” پر دی جانے والی سزاؤں کی جرمن سیاست دان مذمت کرتے رہے ہیں۔”تاہم جرمنی خود بھی اب اسی سمت آگے بڑھ رہا ہے۔”