پیرس (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے ایف پی) فرانس کی ایک اعلی عدالت نے شام میں کیمیائی حملے کے الزام میں ملک کے رہنما بشار الاسد کے وارنٹ گرفتاری کی توثیق کر دی ہے۔ سن 2013 میں دمشق کے مضافات میں غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوا تھا۔
فرانس میں وکلاء کا کہنا ہے کہ ایک اپیل عدالت نے اپنے اہم فیصلے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف جو گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، ملک کی اعلیٰ عدالت نے درست قرار دیا ہے۔
گزشتہ برس نچلی عدالت کے بعض ججوں نے سن 2013 میں شام میں مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے سلسلے میں بشار الاسد اور ان کے تین دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹرز نے اس وارنٹ کی درستگی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسد کو ایک غیر ملکی سربراہ مملکت کی حیثیت سے استثنیٰ حاصل ہے۔
واضح رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کیمیائی حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
مدعیوں کے وکلاء نے پیرس کورٹ آف اپیل کے فیصلے کو ”تاریخی” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ”پہلا موقع ہے جب کسی قومی عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایک سربراہ مملکت کو مکمل طور پر ذاتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔”
واضح رہے کہ فرانس ان ممالک میں شامل ہے جو اپنی عدالتوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمات دائر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
عدالت نے کیا کہا؟
بدھ کے روز پیرس کورٹ آف اپیل نے کہا کہ اس نے وارنٹ کی درستگی کی تصدیق کر دی ہے۔
عدالتی بیان میں کہا گیا، ”کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ایک لازمی اصول کے تحت روایتی بین الاقوامی قانون کا بھی حصہ ہے۔ وہ بین الاقوامی جرائم جو ججز کے پیش نظر ہیں، انہیں سربراہ مملکت کے سرکاری فرائض کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس طرح سے انہیں اس خودمختاری سے الگ کیا جا سکتا ہے، جو قدرتی طور پر ان فرائض سے منسلک ہے۔”
اس حملے میں زندہ بچ جانے والے افراد اور سیریئن سینٹر فار میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن (ایس ایم سی) نے پیرس میں سن 2013 کے حملے کے بارے میں فرانس کے تفتیشی ججوں کے پاس اس بارے میں شکایت درج کرائی تھی۔
فیصلے کے باوجود شام کے صدر اسد کو فرانس میں مقدمے کا سامنا کرنے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ ایس ایم سی کے ڈائریکٹر مازن درویش نے کہا کہ ”کیمیائی حملوں کے متاثرین کے لیے انصاف کی جانب یہ ایک اہم قدم” ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ”یہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ سنگین جرائم کے لیے استثنیٰ کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور وہ دور ختم ہو گیا ہے جب استثنیٰ کو بچنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔”
شام میں ہونے والے کیمیائی حملے کی روداد؟
گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ملک تباہ ہو چکا ہے، جو 2011 میں صدر اسد کی حکومت کی جانب سے جمہوریت کے حامی پرامن مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئی تھی۔
اس تنازعے کی وجہ سے شام میں نصف ملین افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور نصف آبادی کو اپنے گھروں سے بے گھر ہونا پڑا ہے، جن میں تقریباً ساٹھ لاکھ بیرون ملک پناہ لینے والے افراد بھی شامل ہیں۔
اگست 2013 میں دمشق کے مضافات میں اس وقت کے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں اعصابی ایجنٹ سارین پر مشتمل راکٹ استعمال کیے گئے تھے۔ تاہم اقوام متحدہ سے اس بارے میں کسی کے خلاف کوئی الزام عائد کرنے کو نہیں کہا گیا۔
مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ صرف شامی حکومتی فورسز ہی اس حملے کی استطاعت رکھتی تھیں اور وہی کر سکتی تھیں۔ تاہم صدر اسد نے اس الزام کی تردید کی اور انہوں نے اس کا الزام باغی جنگجوؤں پر عائد کیا۔
صدر اسد نے بعد میں کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کی توثیق کی اور شام کے اعلان کردہ کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت والی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے تفتیش کاروں نے حکومتی فورسز کو ان متعدد مہلک کیمیائی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو اس کے بعد ہوئے ہیں۔