واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی انٹیلی جینس اور سیکیورٹی اہل کار، ملک کی جنوبی سرحد پر اپنی توجہ اس خدشے کے تحت بڑھا رہے ہیں کہ اس امریکی سرحد پر غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل آمد کی وجہ سے دہشت گرد گروپ داعش کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی ہے۔
اس تشویش میں اضافہ تب ہوا جب اس ماہ کے شروع میں تاجکستان کے آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا جو سب میکسیکو کے ساتھ واقع جنوبی سرحد کے راستے امریکہ داخل ہوئے تھے۔ کچھ نے یہ سفر ایک سال قبل کیا تھا۔
اگرچہ ان افراد کے پس منظر کی ابتدائی جانچ پڑتال صاف نکلی، تاہم امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے بعد میں ایسی معلومات فراہم کیں جن سے ظاہر ہوا کہ ان کے ممکنہ طور پراسلامک اسٹیٹ گروپ کے ساتھ تعلقات تھےجو IS داعش یا ISIS کے نام سے بھی معروف ہے۔
انٹیلیجینس اور تجزیہ سے متعلق امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے انڈر سیکرٹری کین وینسٹائن نے ماسکو کے کنسرٹ ہال میں مارچ میں ہونے و الے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش کے افغان ساتھی نے قبول کی تھی، کہا کہ ہم نے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا ہے کہ جن لوگوں نے اس تھیٹر میں 150 سے زیادہ روسیوں کو ہلاک کیا تھا، ان کا تعلق دنیا کے اسی حصے سے تھا۔
وینسٹائن نے بدھ کے روز ایوان میں انسداد دہشت گردی سے متعلق ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ذیلی کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ داعش کے سرحد سے فائدہ اٹھانے کے امکانات کے بارے میں تشویش کےنتیجے میں امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز (این سی ٹی سی) کے ڈائریکٹر کے ساتھ روزانہ میٹنگز اور ساتھ ہی ایف بی آئی کے ساتھ غیر معمولی تعاون کیا جا رہا ہے۔
لیکن انہوں نے انٹیلیجنس رپورٹس سے پیدا ہونے والے خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی جن میں بتایا گیا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ یا داعش سے منسلک انسانی اسمگلنگ کا ایک نیٹ ورک وسطی ایشیا سے 400 سے زیادہ تارکین وطن کو جنوبی سرحد کے راستے امریکہ لایا ہے۔
وینسٹائین نے قانون سازوں کو بتایا کہ “ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہو کہ وہ مخصوص افراد دہشت گرد ہیں۔”
400 تارکین وطن کے بارے میں معلومات، جن کی رپورٹ سب سے پہلے این بی سی نیوز نے دی تھی، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ 150 سے زیادہ تارکین وطن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لیکن حکام نے این بی سی کو بتایا کہ 50 سے زیادہ افراد کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔
داعش جیسے دہشت گرد گروپس کے بارے میں پائے جانے والے یہ نئے خدشات کہ وہ جنوبی سرحد کو فعال طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، خطرے کے منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے امریکی حکام کا برسوں سے یہ موقف رہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ داعش یا دیگر سنی دہشت گرد گروپ میکسیکو کے ساتھ واقع اس کی سرحد کے راستے امریکہ میں دراندازی کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ نومبر میں،این سی ٹی سی کی ڈائریکٹر کرسٹین ابی زید نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ اگرچہ انسداد دہشت گردی کے عہدے دار “خطرے کو قطعی طور پر تسلیم کرتے ہیں،” تاہم ایسے منصوبوں کے بارے میں شواہد کا فقدان ہے۔
انہوں نے اس وقت ایوان نمائندگان کے ارکان کو بتایا تھا کہ ” ہمارے پاس ایسے شواہد نہیں ہیں جو مستند یا مصدقہ ہوں۔”
لیکن اس ماہ کے شروع میں امریکہ اور ترکیہ کی جانب سے داعش پر عائد کی گئی پابندیوں کے سامنے آنے کے بعد انسانی اسمگلنگ میں دہشت گرد گروپ داعش کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی ممکنہ طور نشاندہی ہوتی ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق یہ پابندیاں یوریشین انسانی سمگلنگ نیٹ ورک پر مرکوز ہیں جو ترکیہ میں داعش کے ارکان کو مدد فراہم کر رہا تھا۔
ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی ،ایف بی آئی اور محکمہ خارجہ سمیت متعدد امریکی ایجنسیوں نے ترکیہ اور ازبکستان میں داعش کے کارندوں کے ساتھ ملوث یوریشین انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک تک رسائی کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
اس بات کے بھی کوئی اشارے نہیں ملے ہیں کہ جس نیٹ ورک پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس کا داعش سے منسلک اسی نیٹ ورک سے تعلق ہے جو تاجکستان سے آٹھ افراد، یا سینکڑوں دوسرے وسطی ایشیائی تارکین وطن کو جنوبی سرحد کے ذریعے امریکہ لایا تھا۔
جہاں تک تاجکستان سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد کا تعلق ہے، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری الیجینڈرو میئرکاس نے بدھ کے روز ایریزونا کے علاقے ٹکسن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ، ” اس وقت جب ہم بات کررہے ہیں تو ان سے نمٹنے کی کارروائی جاری ہے۔”
دوسرے امریکی حکام نےکہا ہے کہ انہوں نے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ڈپٹی ایڈوائزر، جین ڈسکل نے بدھ کو اوماہا، نیبراسکا میں انسداد دہشت گردی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔”ہم نے اپنی سرحد پر اپنی چوکسی میں اضافہ کر دیا ہے،”
لیکن ڈسکل نے تسلیم کیا کہ داعش اور خاص طور پر اس کے افغان ساتھی سے خطرہ برقرار ہے۔
انہوں نے کہا، “ISIS اور ISIS-Khorasan، یا جسے ہم ISIS-K کہتے ہیں، دونوں بیرونی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت اور ارادے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔”