‘افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے’، وزیر دفاع خواجہ آصف

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستان کا کہنا ہے کہ آپریشن ‘عزم استحکام’ کے تحت تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے اندر بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس کی بنیاد نہیں ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آپریشن’ عزمِ استحکام ‘کے تحت حکومت سرحد پار افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

جمعرات کے روز اس مسئلے پر غیرملکی میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے وضاحت کی کہ آپریشن ‘عزمِ استحکام ‘کا فیصلہ عجلت میں نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ایک ایسا ماحول بھی ہے، جہاں سیاسی جماعتیں اپنے مفاد کے لیے حکومتی فیصلوں کو ماننے سے گریزاں ہیں۔

وزیر دفاع کا یہ بیان اسی روز سامنے آیا، جب مولانا فضل الرحمان نے خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کی نازک صورتحال کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو متنبہ کیا۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ فضل الرحمان نے کہا کہ حالات اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ مسلح افراد کی موجودگی کی وجہ سے پولیس بھی رات کو باہر نکلنے سے ڈرتی ہے۔

تاہم خواجہ آصف نے یقین دلایا کہ آپریشن کے بارے میں کسی بھی سیاسی جماعت کے تحفظات کو دور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو قومی اسمبلی میں پیش کرے گی تاکہ سوالات و جوابات کے ذریعے اراکین میں اعتماد پیدا کیا جا سکے اور شکوک و شبہات دور ہو سکیں۔

خواجہ آصف نے کیا کہا؟

انٹرویو کے دوران پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن، ”عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہوں کو سرحد پار بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستان کی سالمیت سے بڑھ کر کئی چیز نہیں ہے۔”

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرحد پر ٹھکانوں کو نشانہ بنانا ”بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، کیونکہ کابل پاکستان کو دہشت گردی ”برآمد” کر رہا ہے اور وہیں پر ”برآمد کنندگان” کو پناہ بھی دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گرچہ ٹی ٹی پی پڑوسی ملک سے کام کر رہی ہے، لیکن اس کا کیڈر، جس کی تعداد تقریباً چند ہزار ہے، ”ملک کے اندر سے کام کر رہے ہیں۔” انہوں نے عمران خان کی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ان عسکریت پسندوں کو اسی دور میں ملک کے اندر واپس لایا گیا تھا۔

وزیر دفاع نے کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے امکانات کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی، ”کوئی مشترکہ بنیاد ہی نہیں ہے، تو بات چیت کیسے ہو سکتی ہے۔”

ایک مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ بات چیت میں خواجہ آصف نے کہا کہ اسلام آباد اسمگل شدہ سامان کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے ”افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے آنے والے تمام ٹریفک کو صرف درست پاسپورٹ اور ویزا کے ساتھ پاکستان میں داخلے کی اجازت ہو گی اور اس فیصلے کے نفاذ سے، ”دہشت گردوں کی دراندازی کو بھی ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔”

فضل الرحمان آپریشن کے خلاف

ایک ایسے وقت جب حکومت پاکستان نے افغانستان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، تو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس کی مخالفت کا فیصلہ کر لیا ہے۔

انہوں نے آپریشن عزم استحکام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ معاملات تو ایک ہفتے کے اندر حل ہو گئے تھے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے علاقوں میں فضائی حملے کیے۔ مولانا نے سوال کیا کہ آخر افغانستان کے ساتھ اسی طرح سے کیوں نہیں نمٹا جا رہا ہے۔

ایک قبائلی جرگے کے بعد اپنی پارٹی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی-ایف کے رہنما نے کہا

کہ اسلام آباد کابل کے بارے میں اپنا فیصلہ غصے اور جذبات کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان مسائل جلد بازی یا دھمکیوں سے حل نہیں کیے جا سکتے کیونکہ یہ دوطرفہ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بنے گا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ عسکریت پسند موجود ہیں۔ مولانا کے مطابق، ”جرگے نے آپریشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا” ہے اور اعلان کیا کہ ”عزم استحکام نہیں، بلکہ عدم استحکام” آپریشن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں