مظفر آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر راولا کوٹ میں سینٹرل جیل پونچھ سے فرار ہونے والے 19 قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کی کوشش کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس دوران شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندی ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور اسلام آباد پولیس کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
حکام کو شبہ ہے کہ جیل سے فرار کا منصوبہ ماضی میں کالعدم جماعت الدعوة سے جڑے غازی شہزاد نامی شخص نے بنایا جس کو گزشتہ برس مئی میں دو ساتھیوں سمیت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ غازی شہزاد نے جنگل میں تربیتی کیمپ قائم کر کے کشمیر میں عسکری تحریک دوبارہ شروع کرنے کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاسی عمل روکنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے قیدیوں کے فرار پر ممکنہ معاونت یا غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔
حکومت نے آئی جی جیل خانہ جات کو عہدے سے ہٹانے کے علاوہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل پونچھ سمیت کم از کم آٹھ اہلکاروں کو گرفتار کیا ہے۔
واقعہ کب پیش آیا؟
حکام کے بقول جیل سے فرار کا یہ واقعہ اتوار کو دن دو بجے پیش آیا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جیل کے اہلکار نے ایک قیدی کی درخواست پر بیرک کا گیٹ کھولا۔ فرار ہونے والے قیدیوں نے اس اہلکار کو قابو کرنے کے لیے سرخ مرچوں اور اسلحے کا استعمال کیا۔
پولیس نے قیدیوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ اس دوران پولیس کی فائرنگ سے ایک قیدی ہلاک بھی ہوا۔
فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر قتل اور دیگر جرائم میں سزائے موت پانے والے قیدی شامل تھے۔
کشمیر میں عسکری کارروائیوں سے جڑے ایک اہم قیدی غازی شہزاد کا نام بھی فرار ہونے والوں میں شامل ہے۔
دوسری جیل منتقلی
ایک اہم سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل سے فرار کی یہ کارروائی غازی شہزاد نامی شخص کی سربراہی اور منصوبہ بندی کے تحت ہی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد سامنے آنے والی بعض سرکاری دستاویزات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جیل حکام فرار کی اس منصوبہ بندی کا پہلے سے اندازہ تھا۔
ان کے بقول وہ غازی شہزاد اور اس کے دیگر دو ساتھیوں سمیت خطرناک قیدیوں کی راولاکوٹ کے بجائے کسی دوسری محفوظ جیل میں منتقلی کے لیے اعلیٰ حکام کو آگاہ کر چکے تھے۔
وائس آف امریکہ کے پاس موجود دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ نے غازی شہزاد اور ان کے ساتھیوں کا مقدمہ راولاکوٹ کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے میرپور کی عدالت میں منتقل کرنے کے احکامات دیے تھے۔ تاہم اس حکم میں گرفتار ملزمان کی دوسری جیل منتقلی سے متعلق کوئی واضح ہدایات نہیں تھی۔
قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کی کوشش
ایس ایس پی پونچھ سردار ریاض مغل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔
حکام کے مطابق فرار ہونے والے قیدیوں کی تلاش کے لیے پولیس کی اضافی نفری تعینات کی جا رہی ہے۔ ضرورت پڑی تو قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے بھی مدد طلب کی جائے گی۔
رات گئے جاری کردہ ایک سرکاری پریس ریلیز کے مطابق حکومت نے اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ اینڈ سویپ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
غازی شہزاد کون ہے؟
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلندری کے گاوں گڑالہ سے تعلق رکھنے والے غازی شہزاد کو گزشتہ سال محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس میں غازی شہزاد کو اپنے چند مسلح ساتھیوں سمیت ایک جنگل میں عسکری تربیتی کیمپ قائم کرتے دیکھا گیا تھا۔
اس دوران پے درپے سامنے آنے والے آڈیوز اور ویڈیوز میں غازی شہزاد نے جموں کشمیر کو ایک ‘آزاد اور خود مختار ریاست’ بنانے کے لیے ‘عسکری جدو جہد’ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
غازی شہزاد نے ‘کشمیر کی آزادی تک’ اس متنازع خطے میں الیکشن سمیت ہر طرح کی سیاسی سرگرمیاں روکنے کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس طرح کی کسی سرگرمی میں ہونے والے جانی نقصان کی خود ذمہ دار ہوں گی۔
عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام
مقامی صحافی حارث قدیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ غازی شہزاد کچھ عرصہ پاکستان کی فوج میں رہنے کے بعد کالعدم جماعت الدعوة میں شامل ہوئے تھے۔ ان کے بقول وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکری کاروائیوں کا حصہ رہے تھے۔
حارث قدیر نے مزید کہا کہ اس کے قریبی لوگوں میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ غازی شہزاد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گرفتار ہوئے تھے اور قیدیوں کے تبادلے میں ان کی واپسی ہوئی تھی۔ ان کا نام اب بھی بھارت کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ تاہم اس دعوے کی تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے 2021 میں ہونے والے عام انتخابات میں غازی شہزاد نے جموں و کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ نامی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور کچھ عرصے بعد تحریک تحفظ جموں کشمیر کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت قائم کر کے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم پلندری میں ایک عسکری تربیتی کیمپ بنانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
اس جماعت کے منشور میں کشمیر کی آزادی کی تحریک چلانا، نوجوانوں کی عسکری تربیت، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں غیر ریاستی جماعتوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور وسائل کی مبینہ لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب شامل ہے۔
غازی شہزاد کے خلاف پونچھ کے شہر ہجیرہ کے علاوہ پلندری اور راولپنڈی میں بھی انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہیں۔
سینٹرل جیل پونچھ کی حالت زار
سینٹرل جیل پونچھ کا شمار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی غیر محفوظ جیلوں میں ہوتا ہے۔ کئی دہائیاں پرانی پانچ کمروں پر مشتمل جیل کی عمارت شہر کے وسط میں گنجان علاقے میں واقع ہے اور یہاں اکثر گنجائش سے زیادہ قیدی ہوتے ہیں۔
راولاکوٹ میں صحافی سردار عابد صدیق نے وائس آف امریکہ کے مطابق جیل کی یہ عمارت 2005 کے زلزلے کے دوران متاثر ہوئی تھی۔ اس دوران بھی کئی قیدی جیل سے بھاگ گئے تھے جن میں سے بعض کو دوبارہ گرفتار کر کے اس وقت مقامی پریس کلب کی عمارت میں رکھا گیا تھا۔
راولاکوٹ شہر سے باہر جیل کی نئی عمارت کی تعمیر کا کام 2014 میں شروع ہونے کے فوراً بعد روک دیا گیا تھا اور یہ عمارت ابھی تک نا مکمل ہے۔
سینٹرل جیل پونچھ سے فرار کا ایک اور واقعہ 2007 میں بھی پیش آیا تھا جب سات کے قریب قیدی جیل کی خستہ حال دیوار گرا کر فرار ہوئے تھے۔
تاہم انہیں بعد میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
غازی شہزاد کی سینٹرل جیل منتقلی کے بعد جیل حکام نے متنبہ کیا تھا کہ یہ جیل اس طرح کے خطرناک قیدیوں کو رکھنے کے لیے موزوں نہیں ہے اور انہیں کسی محفوظ جیل میں منتقل کیا جائے۔ تاہم اس سلسلے میں اقدامات خط و کتابت سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
اسی سینٹرل جیل میں سابق کشمیری جہادی کمانڈر محمد ریاض عرف ابو القاسم کے قتل کے الزام میں گرفتار نوجوان کو بھی رکھا گیا ہے۔
ابو القاسم کو گزشتہ سال راولاکوٹ کی ایک مسجد میں دورانِ نماز قتل کر دیا تھا اور پاکستان کا الزام ہے کہ اس قتل میں بھارت کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔
پاکستان میں جیلوں کی حالتِ زار
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جیلوں کی حالت زار کا معاملہ تواتر کے ساتھ اٹھایا گیا ہے۔
جیلوں کی مخدوش حالت، گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھنے، خواتین قیدیوں کے لیے نامناسب انتظامات اور نابالغ بچوں کو عام قیدیوں سے ساتھ رکھنے کا معاملہ بھی انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دس میں سے تین اضلاع، نیلم ویلی، جہلم ویلی اور حویلی کہوٹہ میں جیل موجود نہیں ہے۔ دیگر سات میں سے تین اضلاع باغ، راولاکوٹ اور پلندری میں جیل کی عمارتیں نامکمل ہیں۔
جون 2022 میں سینٹرل جیل مظفرآباد میں ایک سرچ آپریشن کے دوران پولیس اور قیدیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم چھ پولیس اہلکار اور متعدد قیدی زخمی ہو گئے تھے۔