لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں گزشہ برس ہونے والے فسادات کو ہوا دینے کے الزام میں مسیحی شہری کو موت کی سزا سنا دی گئی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی ساہیوال کی عدالت نے مسیحی شخص کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت مجموعی طور پر 22 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی ہے۔
مسیحی شخص پر الزام تھا کہ اس نے گزشتہ برس توہینِ مذہب سے متعلق مواد سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس کی وجہ سے جڑانوالہ میں فسادات پھوٹ پڑے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں دو مسیحی افراد پر توہینِ مذہب کا الزام لگنے کے بعد متعدد گرجا گھروں اور گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی۔
امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے ذمہ داروں کو سزا دینے کے مطالبات کیے گئے تھے۔
انسدادِ دہشت گردی ساہیوال کی عدالت کے جج ضیاء اللہ خان نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ ملزم نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹک ٹاک اکاؤنٹ اسی کا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم اپنی سزا کے خلاف سات روز کے اندر عدالتِ عالیہ میں رجوع کر سکتا ہے۔
ملزم پر الزام تھا کہ اس نے 16 اگست 2023 کو سانحہ جڑانوالہ کا سبب بننے والے مواد کو اپنے موبائل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹِک ٹاک پر اپ لوڈ کیا ہے۔ مقدمے کے مطابق ملزم نے مذہبی منافرت پھیلائی جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات محروح ہوئے۔
جڑانوالہ واقعے کے بعد پولیس نے مرکزی ملزم سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا۔ مرکزی ملزم تاحال جیل میں ہے جس کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت ہے جب کہ دیگر چند ملزمان کو رہا کر دیا گیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت فیصل آباد نے رواں برس مارچ میں سانحہ جڑانوالہ کے دو مسیحی بھائیوں کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔
ضلع ساہیوال کے ایس پی انویسٹی گیشن محمد طاہر کھچی بتاتے ہیں کہ پولیس نے اِس واقعے کی مکمل چھان بین کی ہے اور تمام شواہد اور ثبوت عدالت میں جمع کرائے ہیں جس کے بعد ہی عدالت نے ملزم کو سزا سنائی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد طاہر کھچی نے کہا کہ ملزم نے سانحہ جڑانوالہ کی بنیاد بننے والا توہینِ مذہب کا خط اپنے ٹِک ٹاک اکاؤنٹ سے دوبارہ اپ لوڈ کیا تھا جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔
ایس پی انویسٹی گیشن اِس سوال کا جواب نہ دے سکے کہ ایک واقعہ جڑانوالہ میں ہوا ہے اور اُس کو بنیاد بنا کر مقدمہ ساہیوال میں کیوں درج کیا گیا۔
عدالت میں ملزم کے کیس کی پیروی کونسل فار آرگنائزیشن فار لیگل ایڈ کی جانب سے خرم شہزاد مان نے کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اِس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رُجوع کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش ملزم کی بے گناہی کے بہت سے ثبوت تھے جو کہ عدالت میں پیش کیے گئے جس سے ملزم کو شک کا فائدہ دیا جا سکتا تھا۔
ملزم کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش ملزم سے مبینہ موبائل برآمد کیا گیا جس کی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی سے تصدیق کرائی گئی۔
اُن کے بقول پنجاب فارنزک ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مذکورہ موبائل سے کوئی گستاخانہ مواد برآمد نہیں ہوا۔ اگر اِس موبائل سے کچھ مواد ہٹایا (ڈیلیٹ) کیا گیا ہے تو اُن کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں کہ وہ ہٹایا گیا مواد دوبارہ حاصل کر سکیں۔
اُن کے بقول استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ٹِک ٹاک اکاؤنٹ ملزم کا ہی ہے۔ اُن کے مطابق استغاثہ کوئی بھی چشم دید گواہ پیش نہیں کر سکی جس نے ملزم کو ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے دیکھا ہو۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی تنظیمیں پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ تاہم حکومتِ پاکستان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ توہینِ مذہب قانون کے غلط استعمال میں کمی آئی ہے۔