جرمنی میں نئے جنگی بنکَروں کی تعمیر کا منصوبہ

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) جرمنی کے متعدد شہر نئے بنکَروں کی تعمیر کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ممکنہ جنگ کی صورت میں لوگوں کو تحفظ مل سکے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

کسی ملک کی پریشانیوں کا اندازہ لگانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ نجی کمپنیاں خوف و ہراس کے دوران پناہ لینے کے لیے مخصوص کمرے اور بنکروں کی تعمیر کتنی تیزی سے کر رہی ہیں۔

نجی، کاروباری اور فوجی استعمال کے لیے ‘پروٹیکشن روم سسٹم’ تیار کرنے والی برلن کی کمپنی بی ایس ایس ڈی ڈیفنس کا کاروبار تشویش ناک حد تک بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ کمپنی بیس ہزار یورو میں استعمال کے لیے فوراً تیار کر لیے جانے والے کمرے سے لے کر دو لاکھ یورو کا مکمل بنکر سمیت ہوم سکیورٹی آلات کی ایک پوری رینج پیش کرتی ہے۔

بی ایس ایس ڈی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ماریو پیچڈے کا کہنا ہے کہ کمپنی کو حالیہ برسوں میں نجی شہریوں، فائر سروسز اور مقامی کونسلوں سے بہت زیادہ فون کالز موصول ہوئے ہیں۔ اس کا سلسلہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران شروع ہوا تھا اور جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس میں کافی اضافہ ہو گیا۔

انہوں نے کہا،”کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ یورپ میں دوبارہ روایتی جنگ چھڑ سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اس لیے جو لوگ پہلے حفاظت سے متعلق سوچ رہے تھے وہ اب اپنے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کرچکے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بنکروں اور دیگر حفاظتی اشیاء کی مانگ زیادہ ہے جب کہ سپلائر ناکافی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ سیاسی حلقوں میں بھی یہ احساس تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ جون کے اوائل میں پوٹسڈم میں وزرائے داخلہ کی ایک کانفرنس کے دوران وفاقی جرمن وزارت داخلہ نے اپنے ریاستی ہم منصبوں کو جرمن آبادی کے لیے ایک جدید پناہ گاہ کی تیاری کے متعلق اسٹیٹس رپورٹ پیش کی تھی۔

یہ رپورٹ جرمن ایسوسی ایشن آف ٹاونز اینڈ میونسپلیٹیز کی ایک رپورٹ کے تین ماہ بعد آئی۔ ملک کے چودہ ہزار مقامی کونسلوں کی نمائندگی کرنے والے اس ادارے نے وفاقی حکومت سے شہریوں کی حفاظت کے لیے اگلے دس برسوں کے دوران دس بلین یورو کی سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ سرد جنگ کے زمانے کے ملک کے دو ہزار بنکروں کی تجدید کی جاسکے۔

یہ کوئی چھوٹا کام نہیں ہے۔ شہری تحفظ اور آفات میں امداد کے وفاقی دفتر(بی کے کے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت ملک میں ایسے صرف 579 بنکر ہیں جہاں لوگ پناہ لے سکتے ہیں۔ ان میں تقریباً چار لاکھ 78 ہزار لوگوں (جرمن آبادی کا 0.56 فیصد) کے پناہ کی گنجائش ہے۔ “لیکن سن 2007 میں سابقہ شیلٹر سسٹم کو ختم کرنے کے بعد سے یہ بنکر بھی نہ تو فعال ہیں اور نہی استعمال کے لیے تیار ہیں۔”

بی بی کے کا کہنا ہے کہ بنکروں کی تعمیر کا ایک نیاتصور منصوبہ بندی کے مراحل میں ہے۔ تاہم جرمن میڈیا میں لیک ہونے والی حکومتی رپورٹوں کے مطابق پوری جرمن آبادی کے تحفظ کے لیے تقریباً دو لاکھ دس ہزار ایک سو اضافی بنکروں کی ضرورت ہو گی۔ اس کی تعمیر میں 25 سال لگیں گے اور اس پر 140.2بلین یورو کی لاگت آئے گی۔

ماریو پیچڈے کا کہنا تھا کہ گزشتہ 35 سالوں میں آبادی کی حفاظت کے لیے تعمیرات کو یقینی طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ لیکن اس طرح کی پناہ گاہوں کو بحال کرنا ممکن بنایا جانا چاہئے۔

لیکن ایک بنکر کتنا محفوظ ہے؟

مغربی جرمنی میں وٹن یونیورسٹی میں اکنامک اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ہانس والٹر بورس اس بات سے متفق ہیں کہ آبادی کی حفاظت کے معاملے کو کافی نظر انداز کیا گیا ہے۔

لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ نیٹو اور روس کے درمیان جنگ کی صورت میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے تعداد کے مدنظر اس طرح کے بنکرز حقیقتاً کتنے موثر ہو سکیں گے۔ مثال کے طور پر روس کے پاس اب ہائپر سونک میزائل ہیں جو صرف دو سے پانچ منٹ کے اندر کالنن گراد سے کسی بھی یورپی شہر تک پہنچ سکتے ہیں۔

بورس کہتے ہیں،”یہ دوسری عالمی جنگ جیسا نہیں ہے، جب ہنوور کے اوپر سے برلن کی طرف بمبار جہازوں کی پرواز کی وارننگ کے بعد لوگوں کو بنکر تک پہنچنے کے لیے پندرہ سے بیس منٹ کا وقت مل جاتا تھا۔” جرمن فوج کے سابق کرنل بورس کا مزید کہنا تھا،”اب فوجی کارروائی کے دوران آبادی کو متنبہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔”

جرمن وفاقی حکومت اس مسئلے کو تسلیم کرتی ہے۔ جنگ کے متعلق ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی سنٹرلائز محفوظ مقامات کے مقابلے میں بڑے رہائشی عمارتوں کے اندرموجود بڑے مرکزی بنکر کم استعمال ہوں گے۔ اسی لیے حکومت یہ مشورہ دینے کا منصوبہ بنارہی ہے کہ شہریوں کواپنی حفاظت کے لیے اپنے تہہ خانوں میں محفوظ کمرے بنانے کے لیے سستے اور آسانی سے دستیاب تعمیراتی سامان حاصل کرنا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں