واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں مارے جانے والے تقریباﹰ بارہ سو میں سے سوا سو ہلاک شدگان کے خاندانوں نے تین ممالک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
حماس کا یہی دہشت گردانہ حملہ قریب دس ماہ قبل غزہ کی تاحال جاری جنگ کی وجہ بنا تھا، جس میں اس فلسطینی علاقے میں اب تک تقریباﹰ 38 ہزار افراد ہلاک اور 86 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ متاثرہ اسرائیلی خاندانوں کی طرف سے امریکہ میں یہ مقدمہ ایران، شام اور شمالی کوریا کے خلاف دائر کیا گیا ہے۔
امریکی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ مقدمہ واشنگٹن میں امریکہ کی ایک وفاقی عدالت میں دائر کیا گیا ہے اور اس کی مدعی امریکہ ہی میں قائم اینٹی ڈیفیمیشن لیگ نامی تنظیم ہے، جس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ عدالتی کارروائی حماس کے حملے میں مارے جانے والے تقریباﹰ 1200 میں سے 125 ہلاک شدگان کے خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شروع کی ہے۔
ایران، شام اور شمالی کوریا پر لگائے جانے والے الزامات
اس مقدمے میں ایران، شام اور شمالی کوریا پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ تینوں ممالک حماس کے اسرائیل میں حملے کے معاون اور سہولت کار تھے۔ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے مطابق ان تینوں ممالک نے ”مادی امداد اور وسائل کی ترسیل کی صورت میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو اس قابل بنایا کہ وہ اسرائیل میں حملہ کر سکتی۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس مقدمے میں درخواست دہندہ خاندانوں نے اپنے ارکان اور رشتے داروں کے قتل اور اغوا کے مالی ازالے کے لیے کم از کم چار بلین ڈالر زر تلافی کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو اس حملے میں حماس کے سینکڑوں جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں داخل ہو کر ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور واپس غزہ پٹی جاتے ہوئے یہ عسکریت پسند تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
ان مغویوں میں سے بیسیوں کو حماس نے پچھلے سال ہی اسرائیلی جیلوں سے سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کر دیا تھا اور بہت سے حماس کی حراست میں اسرائیلی حملوں کے دوران مارے جا چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ بیسیوں اسرائیلی یرغمالی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔
حماس کا حملہ غزہ کی جنگ کا موجب
حماس کے اس خونریز حملے کے فوری بعد اسرائیل نے کئی ممالک کی طرف سے باقاعدہ دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم حماس کے غزہ پٹی میں عسکری ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے۔ حماس کا یہی حملہ غزہ کی اس جنگ کی وجہ بنا تھا، جس دوران صرف غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں ہی گزشتہ تقریباﹰ 10 ماہ کے دوران 38 ہزار کے قریب فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
اس کے علاوہ اسی جنگ میں غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اب تک 86 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی بہت بڑی تعداد عام فلسطینی شہریوں خاص کر خواتین اور بچوں کی بتائی جاتی ہے۔
سات اکتوبر کے حملے میں اسرائیل میں جو سینکڑوں افراد مارے گئے تھے، ان میں نہار نیٹا کی والدہ بھی شامل تھیں۔ نیٹا نے بتایا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ اس مقدمے کے مدعیان میں شامل ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ یوں ”اس حملے سے متاثرہ خاندانوں کو کچھ سکون اور کسی حد تک انصاف تو مل سکے۔‘‘
اگر یہ عدالتی کارروائی کامیاب رہی تو؟
اس مقدمے میں واشنگٹن میں متعلقہ فیڈرل کورٹ نے اپنا فیصلہ اگر درخواست دہندگان کے حق میں سنا دیا، تو متاثرہ خاندانوں کو اس فنڈ سے زر تلافی کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی، جو امریکی کانگریس نے دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لیے قائم کر رکھا ہے۔
اس فنڈ میں جمع کردہ رقوم وہ مالی وسائل ہوتے ہیں، جو امریکہ نے یا تو ضبط کیے ہوتے ہیں یا جو ایسے اداروں کو سنائی گئی جرمانے کی سزاؤں کی مد میں حاصل ہوئے ہوتے ہیں، جو ایسی ریاستوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، جن پر یا تو بین الاقوامی پابندیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں یا جن کو دہشت گردی کی سرپرست ریاستیں سمجھا جاتا ہے۔