اسلام آباد (ڈیلی اردو) سال کی پہلی ششماہی میں لاپتا افراد کے مجموعی طور پر 197 نئے کیسز کمیشن آف انفورسڈ ڈسپیئرنس (سی او آئی او ای ڈی) کے پاس جمع کرائے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ کمیشن 2011 میں لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور ذمہ دار افراد یا تنظیموں پر ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 کے پہلے چھ ماہ میں 226 کیسز نمٹائے گئے۔
کمیشن نے کہا کہ 30 جون تک موصول ہونے والے کیسز کی کل تعداد 10,285 تھی جبکہ 8,015 کیسز نمٹائے گئے جن میں اب تک کل 6,464 افراد کا سراغ لگایا گیا اور 1,551 کیسز نمٹائے گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2,270 کیسز رہ گئے جبکہ 4,514 گھروں کو لوٹ گئے، 1002 حراستی مراکز میں موجود تھے، 671 جیلوں میں تھے اور 277 مردہ پائے گئے۔
اس میں کہا گیا کہ جون میں 47 کیسز موصول ہوئے اور 28 کو نمٹا دیا گیا جن میں سے 13 کا جبری گمشدگیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، 9 اپنے گھروں کو لوٹ گئے، تین کو حراستی مراکز میں، دو کو جیلوں میں رکھا گیا اور ایک شخص کی لاش ملی۔
23 اپریل کووزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ ”راتوں رات حل نہیں ہو سکتا“ لیکن حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان سب سے پہلے اتفاق رائے حاصل کرکے اس کا حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وزیر قانون نے اس بات پر زور دیا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر بات کرتے وقت یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ زدہ علاقے میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پڑوسی ممالک کے حالات نے اندرونی حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے نوٹ کیا کہ پاکستان کے عوام اور فوج نے اپنی قربانیوں کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ”ناقابل یقین قیمت“ ادا کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کے مسئلے کا حل تلاش کرتے وقت اسی بات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔