لاپتا افراد کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کردیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے جبری طور پر لاپتا افراد کے مقدمے میں سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف سیکریٹری دفاع، چیف کمشنر اسلام آباد اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے سنگل بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سنگل بینچ نے سنہ 2018 میں جبری طور پرلاپتا ہونے والے آئی ٹی ماہر ساجد محمود کی اہلیہ مائزہ ساجد کی درخواست پر اس وقت کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا تھا۔

اسی درخواست میں اس وقت کے چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر کو اور آئی جی اسلام آباد خالد خان خٹک کو ایک ایک لاکھ روپے جبکہ اس وقت تھانہ شالیمار کے ایس ایچ او قیصر نیاز کو تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی تو بینچ کے سربراہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کوئی خوشخبری ہے اور کیا لاپتا افراد آگئے ہیں؟

جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس جواب پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی سال گزر گئے ہیں۔ کہاں ہیں لاپتا افراد اور حکومتی نمائندے ہر بار آپ آکر کہہ جاتے ہیں کہ پیش رفت ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ہیں اور سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے ہیں۔

انھوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو جرمانہ عائد ہوا اسے ہم ڈبل کردیتے ہیں اور یا پھر وزیر اعظم کو طلب کرلیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کئی سالوں سے یہ کیسز زہر سماعت ہیں نہ لاپتا افراد بازیاب ہوئے نہ کوئی پیش رفت ہوئی۔

بینچ میں موجود جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی پیش رفت ہے تو بتائیں کہ ہوا کیا ہے اور آپ کیا کر رہے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت سے ایک ماہ کا وقت دینے کی استدعا کی گئی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھیج دیتے ہیں جو کام آپ نے ہمارے ساتھ کیا مہربانی کرکے آپ وہ سپریم کورٹ کے ساتھ کریں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیا طریقہ ہے ہم وقت دے دے کر تھک گئے، اور آپ کوئی پیش رفت نہیں بتا رہے۔ کئی سالوں سے تو یہ انٹراکورٹ اپیلیں چل رہیں ہیں جبکہ اس کے علاوہ جو کیسز اسی سے متعلق ہیں وہ الگ چل رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کبھی کبھی لگتا ہے ہر مرتبہ آپ کی نئی کہانی ہوتی ہے

انھوں نے کہا کہ آئین کے مطابق سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد سے متعلق ایک کمیٹی بنائی ہے اور ان کا کام حتمی مراحل میں ہے اس لیے انھیں کچھ مہلت درکار ہے۔

چیف جسٹس نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سیدھا بتائیں کہ بندے کدھر ہیں۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ان افراد کی بازیابی سے متعلق تمام کوششیں کی جارہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے لیے اپیلوں پر فیصلہ کرنا بہت آسان ہے اور ان جرمانوں کو ڈبل کردیتے ہیں اور آنے والا ہر سیکریٹری اور آئی جی اپنی تنخواہوں سے جرمانہ ادا کرتا جائے گا۔

عدالت نے ان افسران کی جانب سے دائر کی گئں اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے سنگل بینچ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں