اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے وزیراعظم ہوں، ان کی اہلیہ یا پھر وفاقی وزرا اور سپریم کورٹ کے جج پاکستان کے سوشل میڈیا پر گذشتہ چند برس کے دوران وقتاً فوقتاً ان اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کی ٹیلیفونک گفتگو یا آڈیوز افشا ہوتی رہی ہیں۔
جب بھی ایسی کوئی آڈیو سامنے آئی تو جہاں اس کی مذمت ہوئی وہیں یہ سوال بھی شدت سے اٹھایا گیا کہ ملک میں ایسی گفتگو یا معلومات ریکارڈ کرنے کی اجازت یا صلاحیت کس کے پاس ہے اور ایسا کیوں اور کیسے کیا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک آڈیو سابق وزیرِاعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کی باہمی گفتگو کی بھی تھی جو افشا ہونے کے بعد بشریٰ بی بی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی ذاتی آڈیو کال کو تبدیل کرتے ہوئے عوامی سطح پر پیش کیا گیا، جس کا مقصد انھیں ہراساں کرنا اور خاندانی زندگی پر منفی اثرات ڈالنا تھا۔
اس معاملے کی سماعت کے دوران یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ نامی ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو صارفین کا ڈیٹا فراہم کرتی ہیں۔
عدالت نے اس معاملے میں اپنے حکم نامے میں لکھا ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے عدالت کو بتایا تھا کہ کسی بھی ایجنسی کو نگرانی کی اجازت نہیں دی گئی اور حکومتِ پاکستان عدالت میں رپورٹ جمع کروائے کہ ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ لگانے کا ذمہ دار کون ہے جو شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔
بی بی سی نے پی ٹی اے اور ٹیلی کام کمپنیوں میں کام کرنے والوں کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ’لا فُل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ سسٹم‘ کیسے کام کرتا ہے اور یہ نظام کیا ہے۔
’لا فل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم‘ ہے کیا اور کیسے کام کرتا ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا نظام ہے جسے پاکستانی صارفین کی فون کالز، پیغامات اور دیگر ڈیٹا تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک ٹیلی کام کمپنی کے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ٹیلی کام کا نگراں ادارہ پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) لائسنس جاری کرتے ہوئے یہ شرط رکھتا ہے کہ ٹیلی کام کمپنی ناصرف لا فُل انٹرسیپشن مینیجمنٹ سسٹم نصب کرے گی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس تک رسائی بھی دے گی۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ان اداروں کو کنیکٹویٹی سینٹر تک رسائی دی جاتی ہے اور پھر ان کے پاس کمپنی کے تمام صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرنے، کالیں سننے اور میسجز پڑھنے کا اختیار مل جاتا ہے۔‘
آڈیو کالز کی ریکارڈنگ اور لیک کیے جانے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جارہ کردہ ایک حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں نے پاکستانی خفیہ اداراوں کو اپنے دو فیصد (تقریباً 40 لاکھ) صارفین کے فون کال، میسجز اور دیگر ڈیٹا تک ’لافُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم‘ کے ذریعے رسائی دے رکھی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پی ٹی اے نے لائسنس یافتہ ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدایت جاری کی تھیں کہ ’لافُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم‘ درآمد کریں اور متعلقہ ایجنسیوں کے استعمال کے لیے متعلقہ مقام پر نصب کریں۔
عدالت نے اس مقام کو ’سرویلنس سینٹر‘ کا نام دیا ہے اور اپنے حکم نامے میں واضح کیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ’سرویلنس سینٹر میں متعلقہ ایجنسی صرف ایک بٹن کو کلک کر کے کسی فرد کو ٹریس یا ٹریک کرنے کا عمل شروع کر سکتی ہے۔‘
اس عمل کو شروع کرنے کے لیے صارف کا موبائل سِم نمبر یا موبائل کے آئی ایم ای آئی نمبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے میں اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ کسی کو ٹریک یا ٹریس کرنے کا عمل شروع ہونے کے بعد ٹیلی کام کمپنی سے جُڑا لافُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم خودکار طریقے سے کام کرنا شروع ہو جاتا ہے اور ’پھر بغیر کسی انسانی مداخلت کے ایس ایم ایس، کال ڈیٹا رپورٹس اور میٹا ڈیٹا سرویلنس سینٹر میں قائم مانیٹرنگ سینٹر کے سرور کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔‘
پی ٹی اے کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نظام کی مدد سے تمام فون کالز اور برقی پیغامات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’لافُل انٹرسیپشن‘ کا مقصد دہشتگردی اور سنگین جرائم کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد کرنا ہے۔
نگرانی کس کی اجازت سے ہوتی ہے؟
پی ٹی اے کے عہدیدار کے مطابق کسی بھی قسم کی بات چیت، پیغامات یا فون کالز تک رسائی حاصل کرنے کے لیے حکومتی حکام کو عدالت سے باقاعدہ طور پر اجازت لینی ہوتی ہے۔
پی ٹی اے عہدیدار نے مزید بتایا کہ ’پاکستان میں لافُل انٹرسیپشن کی اجازت انویسٹیگیشن فور فیئر ٹرائلز ایکٹ کے ذریعے دی گئی ہے۔‘
ان معاملات پر نظر رکھنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ’یہ قانون 2013 میں منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی ان (ایجنسیوں) کی سرویلنس ہوتی ہے اسے قانونی حیثیت دی جائے تاکہ وہاں سے حاصل کی گئی چیزوں کو بطور ثبوت بھی استعمال کیا جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نگرانی شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کسی ہائی کورٹ کے جج سے اجازت لی جائے۔ اس کے بعد وہ اس اجازت نامے کو لے کر ٹیلی کام کمپنی کے پاس جاتے ہیں اور وہاں سے انھیں مطلوبہ ڈیٹا تک رسائی ملتی ہے۔‘
ٹیلی کام کمپنی کے عہدیدار کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’عام قانون تو یہی ہے کہ اداروں کو کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے حکومتی یا عدالتی حکم نامہ لینا ہوتا ہے لیکن جب وہ پہلے ہی کنیکٹویٹی سینٹر کے ذریعے صارفین تک رسائی رکھتے ہیں تو ہمیں حکومتی یا عدالتی حکم نامہ کیوں دکھائیں گے؟‘
اس سوال پر کہ عدالت کو تو بتایا گیا ہے کہ کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف ٹیلی کام کمپنیوں کے دو فیصد صارفین تک رسائی حاصل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب ایک بار آپ نے ان اداروں کو اپنے سسٹم یا صارفین تک رسائی دے دی تو پھر کون یقینی بنا سکتا ہے کہ وہ کس کی کالیں سن رہے ہیں یا ایس ایم ایس پڑھ رہے ہیں؟‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا ضرور ہے کہ ایجنسیوں کے پاس بیک وقت تمام صارفین تک رسائی حاصل کرنے کے وسائل نہیں اور نہ ہی یہ انسانی طور پر ممکن ہے۔‘
ٹیلی کام کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ’ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے سسٹم تک رسائی دینے کے لیے قانونی طور پر پابند ہیں۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی جاتی ہے تاکہ وہ جرائم کو روک سکیں لیکن اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس کا اچھا استعمال کرتے ہیں یا غلط۔‘
کیا دنیا میں ایسا نظام کہیں اور استعمال ہوتا ہے؟
پی ٹی اے کے عہدیدار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’لافُل انٹرسیپشن ایک بین الاقوامی پریکٹس ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یورپی ٹیلی کمیونیکیشن سٹینڈرڈز انسٹٹیوٹ نے بھی ’لافُل انٹرسیپشن‘ کی تعریف بیان کی ہے، جس کے مطابق اس اصطلاح کے معنی نجی کمیونیکیشن جیسے کہ ٹیلی فون کالز یا ای میل میسجر تک سرکار یا حکومت کو رسائی دینا ہوتا ہے۔
پی ٹی اے عہدیدار کی بیان کردہ تعریف کے مطابق کمیونیکیشن تک رسائی اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیوں کو دی جاتی ہے تاکہ وہ قومی سلامتی یا عوام کی حفاظت کے لیےضروری معلومات حاصل کر سکیں۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کے تحریر کردہ تفصیلی حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ نگرانی کے لیے شہریوں کی ٹیلیفون کالز کی ریکارڈنگ کرنا بادی النظر میں قانونی طور پر درست نہیں۔
’اہم سوال یہ ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف ہے‘
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی غیر سرکاری تنظیم کی شریک بانی صدف خان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرویلنس یا نگرانی کے قوانین طے ہو چکے ہیں خصوصا دہشت گردی اور دیگر جرائم کی تفتیش کے لیے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدف خان کا کہنا تھا کہ ’اس عمل کے دوران ایک خدشہ یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کی نگرانی اس وقت شروع کر دی جائے جب اس پر کوئی جرم کرنے کا شک ہو اور ابھی سزا نہیں ہوئی۔‘
’اسی لیے یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ یہ عمل جن قوانین کے تحت کیا جاتا ہے اس میں زیادہ سے زیادہ تحفظ موجود ہو تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ کم ہو جائے۔‘
صدف خان نے بتایا کہ پاکستان میں 2013 میں ’انوسٹیگیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ‘ آیا تھا جس میں پہلی بار لائیو سرویلنس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی اور ’ایک مخصوص طریقہ کار موجود ہے جس میں عدالتی طریقہ کار اور وارنٹ لینے اور اس کی مدت کو طے کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر حکومتوں کے پاس ایسا نظام موجود ہوتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف ہے اور کیا قانون میں جو طریقہ کار موجود ہے اس کے تحت وارنٹ لیا جاتا ہے یا نہیں۔‘
’اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق شفافیت پر بہت سے سوالات ہیں کہ یہ نظام کہاں سے خریدا گیا؟ کیا باہر سے لایا گیا یا مقامی طور پر تیار ہوا اور اس پر کتنا خرچہ ہوا؟‘
’یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کتنی بار استعمال ہوا اور جس تفتیش میں استعمال ہوا اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ ڈیٹا کو رکھنے کا کیا طریقہ ہے؟ ان سوالوں کے جواب ہمیں عدالتی دستاویزات سے نہیں ملتے۔‘