نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بھارتی ریاست اترپردیش کے حکام نے ہاتھرس میں ایک ہندو بابا کے ‘ست سنگ’ (مذہبی اجتماع) میں بھگدڑ مچنے کے واقعے میں 120 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں حکام نے منگل کی شام کو ایک نام نہاد ہندو بابا کے مذہبی اجتماع میں بھگدڑ مچنے کے واقعے میں اب تک 121 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے، جبکہ درجنوں متاثرین کا اب بھی علاج چل رہا ہے اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں بیشتر خواتین ہیں، جن کی تعداد تقریبا ًسو بتائی گئی ہے جبکہ چند بچوں سمیت ایک درجن سے زائد مرد بھی ہلاک ہوئے۔
ایک مقامی طبی اہلکار امیش ترپاٹھی نے بتایا کہ ”بہت سے زخمیوں کا اب بھی علاج چل رہا ہے اور مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ایک مذہبی تقریب میں بھگدڑ مچنے کا واقعہ ہے۔”
واقعے کے فوری بعد کئی سینیئر پولیس اہلکار بھگدڑ کے مقام پر پہنچے اور حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بھگدڑ کا یہ اپنی نوعیت کا بدترین سانحہ ہے، جس میں بیشتر متاثرہ عقیدت مند دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں ایک دوسرے کے اوپر ڈھیر بنتی چلی گئیں۔ متعدد ممالک کے سفیروں نے بھی اس واقعے میں جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟
بھارت کے بیشتر علاقوں میں خود ساختہ مذہبی بابا پائے جاتے ہیں، جو الوہی طاقت رکھنے کا دعوی کرنے کے ساتھ ہی ہر طرح کی بیماری کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک خود ساختہ بھگوان ‘بھولے بابا عرف نارائن ہری’ ہیں اور انہوں نے اپنے عقیدت مندوں کے لیے ست سنگ کا اہتمام کیا تھااور اس مذہبی تقریب کے اختتام دوران یہ واقعہ پیش آیا۔ بابا کا اصل نام سورج پال بتایا جا رہا ہے، جو فی الوقت فرار ہیں اور پولیس ان کی تلاش میں ہے۔
ست سنگ میں گنجائش سے زیادہ، تقریبا ًدو لاکھ افراد موجود تھے۔ بابا کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ ان کے پیر کی دھول سب سے مبارک پرساد ہے اور عام طور پر پروگرام ختم ہونے پر ان کے عقیدت مند تبرک کے لیے اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
منگل کی شام کو بھی ایسا ہی ہوا اور جیسے ہی ‘ست سنگ’ (مذہبی جلسہ) ختم ہوا، تو عقیدت مند بابا نارائن ہری کی گاڑی کے پیچھے ان کے پاؤں چھونے کے لیے بھاگے۔ تاہم لوگ بہت زیادہ تھے اور افراتفری کے سبب بھگدڑ مچ گئی۔
ریاست اتر پردیش کے چیف سکریٹری منوج کمار سنگھ نے بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ تقریب کے منتظمین کی جانب سے ‘ست سنگ’ منعقد کرنے کی اجازت کے لیے جمع کرائی گئی درخواست میں شرکاء کی تعداد 80,000 بتائی گئی تھی، لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً ڈھائی لاکھ لوگ اس تقریب میں موجود تھے۔
خود ساختہ بابا کون ہیں؟
بابا کا اصل نام سورج پال ہے۔ وہ ریاست اتر پردیش کے ضلع ایٹا میں بہادر نگر گاؤں میں ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے بعد انہوں نے یوپی پولیس میں شمولیت اختیار کی اور 18 سال سے زیادہ عرصے تک انٹیلیجنس یونٹ کے ساتھ ہیڈ کانسٹیبل کے طور پر کام کرتے رہے۔
سن 1999 میں انہوں نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنا نام بدل کر نارائن ساکار ہری رکھ لیا اور ست سنگ کرنے لگے۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کو بتاتے کہ ن کا میلان روحانیت اور عالمی امن کی طرف ہے اور اپنے روحانی سفر کے لیے استعفیٰ دے دیا ہے۔
بابا ساکار ہری نارائن کے عقیدت مندوں کا دائرہ اترپردیش سمیت ملک کی کئی ریاستو ں تک پھیلا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے متعلق حقیقت فاش ہونے کے خوف سے وہ کبھی میڈیا سے بات نہیں کرتے تھے۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے مقامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنیل کمار نے کہا کہ پولیس بابا کی تلاش میں ہے۔
تفتیش کا حکم
یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ آج بدھ کے روز ہاتھرس کا دورہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اس واقعے کی اطلاع ملنے پر کہا، ”ہماری حکومت اس واقعہ کی تہہ تک جائے گی اور سازش کرنے والوں اور ذمہ داروں کو مناسب سزا دی جائے گی۔ ریاستی حکومت اس پورے واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ آیا یہ ایک واقعہ ہے، کوئی حادثہ یا پھر سازش ہے۔”
ایک سرکاری بیان کے مطابق آگرہ اور علی گڑھ ڈویژنل کمشنر پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس واقعے کی وجوہات کی تحقیقات کرے گی۔ تفتیشی رپورٹ 24 گھنٹے میں جمع کرانے کو کہا گیا ہے۔
بھارت میں بھگدڑ میں ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے اور ہر سال اس طرح کے واقعات میں بہت سے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو حکام کی تفتیش کے نام پر اس کی روک تھام کے بھی متعدد دعوے کرتے ہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ہی حالات پھر ویسے ہی معمول کے مطابق چلنے لگتے ہیں اور ہر روز ہونے والے ایسے بڑے اجتماعات کی کوئی بھی نگرانی نہیں کرتا۔