بی ایل اے کی جانب سے مغویوں کی رہائی کیلئے دی گئی مہلت ختم: پیش رفت نہ ہونے پر سزا پر عمل درآمد کیا جائیگا

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے گرفتار لوگوں کی رہائی کے بدلے میں 7 مغوی افراد کی رہائی کے لیے ایک ہفتے کی جو مہلت دی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔

تنظیم کی جانب سے سنیچر کے روز سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ مغویوں کی رہائی کے بدلے میں تنظیم کے مطالبے پر پیش رفت نہ ہونے پر مغویوں کے سزا پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

بلوچستان میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے 7 مغویوں کی رہائی کے لیے پانچ گرفتار عسکریت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حکام کے مطابق مغوی افراد کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پنجابی بولنے والے سیٹلرز ہیں جن میں تین سگے بھائی بھی شامل ہیں۔

ان افراد کی بازیابی کے لیے ان کے رشتہ داروں نے بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر اسمبلی کے باہر مظاہرہ بھی کیا تھا۔

اغوا ہونے والے یہ افراد عید الاضحیٰ کے بعد پکنک منانے گئے تھے جنھیں 7 دیگر افراد کے ہمراہ اغوا کیا گیا تاہم سرکاری حکام کے مطابق ان میں سے 7 افراد کو دو مراحل میں چھوڑ دیا گیا۔

ان افراد کو کب اور کہاں سے اغوا کیا گیا؟

ان افراد کو گزشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو زرغون غر میں شابان کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔

زرغون غر کوئٹہ شہر کے مشرق میں ضلع کوئٹہ سے متصل ضلع ہرنائی کا علاقہ ہے۔ یہ ضلع انتظامی لحاظ سے بلوچستان کے سبّی ڈویژن کا حصہ ہے۔

ہرنائی کے متعدد علاقوں کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے متاثر ہیں۔

اغوا ہونے تمام افراد کوئٹہ سے عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز پکنک منانے شابان گئے تھے جس کا شمار بلوچستان کے سرد اور خوبصورت سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔

ان افراد کے اغوا کے بعد ایک ویڈیو بھی جاری گئی تھی جس میں دن کی روشنی میں مسلح افراد کی بڑی تعداد شابان میں موجود دکھائی دی۔

یہ مسلح افراد اس ویڈیو میں وہاں بعض لوگوں کے شناختی کارڈز دیکھتے اور بعض افراد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آئے۔

سبّی ڈویژن کے ایک سابق سینیئر اہلکار نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اغوا کاروں نے وقوعہ کے روز مجموعی طور پر 14 افراد کو اغوا کیا تھا جن میں سے چار کو پہلے ہی روز چھوڑ دیا گیا تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ باقی جن دس افراد کو مارگٹ کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں کی جانب لے جایا گیا تھا ان میں سے دو افراد کا تعلق پنجاب جبکہ باقی 8 افراد کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔

ان دس افراد کو اغوا کرنے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

اغوا ہونے والے دس افراد میں سے تین کو 26 جون کو رہا کردیا گیا تھا جن میں محمد حارث رفیع ولد محمد رفیع، حسنین سیال ولد عبدالاحد سیال اور عبدالبصیر درانی ولد عبدالعزیز درانی شامل تھے۔

کالعدم تنظیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے ایک بیان میں رہائی پانے والوں میں سے محمد حارث رفیع کا تعلق ملتان جبکہ باقی دو کا تعلق کوئٹہ سے بتایا گیا تھا۔

تنظیم کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ باقی 7 افراد کو بلوچ قومی عدالت میں پیش کیا گیا جن پر جرم ثابت ہوا۔

ان 7 افراد کی رہائی کے بدلے میں تنظیم کی جانب سے اپنے بعض ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

بیان کے مطابق ان افراد کی رہائی کے لیے تنظیم کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے پر تنظیم کے کمانڈ کونسل نے مزید مہلت دینے کی بجائے ان 7افراد کے سزاؤں پر عملدرآمد کا حکم جاری کردیا ہے۔

تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں ان افراد کی شناخت کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان میں محمد علی ولد خورشید، حسن رضا ولد شان رضا، فرحان رضا ولد شان رضا، ریحان رضا ولد شان رضا، محمد حمزہ ولد محمد رفیع اور محمد رضا ولد شیخ مقصود رضا شامل ہیں۔

کالعدم تنظیم کے بیان میں ان افراد کا تعلق پنجاب کے دو مختلف علاقوں خانیوال اور ملتان سے بتایا گیا ہے۔

سرکاری حکام کا مغوی افراد کے بازیابی کے حوالے سے کیا کہنا ہے؟

کالعدم عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لیے دی جانے والی مہلت کے خاتمے کے بعد تنظیم کے بیان کے حوالے سے بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو اور کمشنر سبی ڈویژن سے فون پر رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

تاہم بلوچستان حکومت میں شامل ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے ان مغویوں کی رہائی کے بدلے میں تنظیم کے پانچ گرفتار لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اگرچہ حکومتی عہدیدار نے تنظیم کے لوگوں کے نام نہیں بتائے تاہم ان کا کہنا تھا کہ تنظیم کی جانب سے پانچ افراد کے نام دیئے گئے ہیں جنھیں تنظیم کے مطابق ریاستی اداروں نے گرفتار کیا ہے۔

حکومتی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ اگرچہ تنظیم کی جانب سے مہلت کے خاتمے کے حوالے سے بیان آیا ہے تاہم حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے تمام مغوی افراد کی بحفاظت بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

حکومتی عہدیدار نے تنظیم کی جانب سے مغوی افراد پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد عام شہری اور معصوم لوگ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کا تعلق پنجاب سے نہیں ہے بلکہ یہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پنجابی بولنے والے سیٹلرز ہیں جن میں تین سگے بھائی بھی شامل ہیں۔

مغوی افراد کی بازیابی کیلئے مظاہرہ بھی کیا گیا

شابان سے اغوا ہونے والے ان افراد کے اغوا کی بازگشت نہ صرف بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں سنائی دی تھی بلکہ بجٹ اجلاس کے موقع پر اسمبلی کے باہر ان افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔

اسمبلی کے اجلاس میں ان افراد کے اغوا کی شدید مذمت کی گئی تھی۔

اسمبلی کے باہر ان افراد کی بازیابی کے لیے ان کے رشتہ داروں نے مظاہرہ کیا تھا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

مظاہرین سے بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیاءاللہ لانگو اور وزیر برائے لائیو سٹاک بخت محمد کاکڑ نے ملاقات کی تھی اور انھیں مغویوں کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے کالعدم عسکریت پسندوں کی جانب سے تشدد کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اغوا کی ذمہ داری بھی قبول کی جاتی رہی ہے۔

مغویوں میں سے بعض کو رہا کیا جاتا رہا جبکہ بعض کو ریاستی اداروں کے اہلکار یا ان پر ریاستی اداروں کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاکر ہلاک بھی کیا جاتا رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں