افغان سرحد کے ساتھ نئے پاکستانی فوجی آپریشن کے اسباب کیا؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان اپنے ہاں مسلح عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ایک نئے فوجی آپریشن کا اعلان کر چکا ہے لیکن مبصرین کو خدشہ ہے کہ اس نئی فوجی مہم سے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان حکمرانوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان نے نئے فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان اس لیے کیا کہ عسکریت پسندی کا خاتمہ کرتے ہوئے اس مسلح مزاحمت کا قلع قمع کیا جا سکے، جس میں حالیہ عرصے میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس نئے آپریشن کو ‘عزمِ استحکام‘ کا نام دیا ہے۔ یہ آپریشن ملکی فوج کی طرف سے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ دو برسوں کے دوران عسکریت پسند گروہوں کے مسلح حملوں اور خونریزی میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سال بھی مختلف عسکریت پسند گروہ اتنے حملے کر چکے ہیں کہ ان میں اب تک دو آرمی افسروں سمیت کم از کم 62 فوجی مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان آرمی کا کہنا ہے کہ سال رواں کے دوران وہ اب تک خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد کی جانے والی مجموعی طور پر 13,000 سے زائد چھوٹی بڑی کارروائیوں میں 249 دہشت گردوں کو ہلاک اور 396 کو گرفتار کر چکی ہے۔

ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمے داری پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی، جو اپنی انتہا پسندانہ مذہبی تشریحات کے مطابق ملک کو ایک اسلامی ریاست میں بدلنا چاہتی ہے اور پچھلے کئی برسوں سے پاکستانی ریاست، حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔

سرحد پار حملوں میں اضافہ؟

پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کی سوچ میں نظریاتی قربت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان اگست 2021ء میں اس وقت دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے، جب امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستے وہاں اپنی 20 سالہ جنگی تعیناتی کے آخری دنوں میں ہندوکش کی اس ریاست سے حتمی انخلا کی تیاریاں کر رہے تھے۔

کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کی طرف سے کابل حکومت پر بار بار الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر پاکستانی طالبان کو محفوظ ٹھکانے مہیا کر رکھے ہیں اور ٹی ٹی پی کے شدت پسند وہاں سے پاکستان میں مسلح حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کابل میں افغان طالبان کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا طویل عرصے سے مختلف مسلح اسلام پسند گروپوں کا سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، جن میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی مقامی شاخ بھی شامل ہے۔

تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی حکومت کے ساتھ کیا گیا ایک فائر بندی معاہدہ نومبر 2022ء میں یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ اس لیے ملکی فوج کے نئے آپریشن ‘عزمِ استحکام‘ میں زیادہ توجہ ان جنگجوؤں کو روکنے پر دی جائے گی، جو افغانستان کے ساتھ سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوتے اور مسلح حملے کرتے ہیں۔

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کی تنبیہ

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ابھی حال ہی میں تنبیہ کی تھی کہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستانی فوج افغان سرزمین پر کارروائیاں کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گی۔ انہوں نے ایک غیر ملکی میڈیا ادارے ے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ”پاکستان کی خود مختاری سے زیادہ اہم کچھ بھی نہیں۔‘‘

اسی طرح پاکستان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔ انتشار پھیلانے والے ملک دشمن عناصر اور مذہبی انتہا پسندوں سب کے خلاف آپریشن کیا جائے گا، اس بات سے قطع نظر کہ کس کا مذہب یا فرقہ کیا ہے۔‘‘

اس تناظر میں دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان نے اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس آپریشن کا مقصد پاکستان کے استحکام کو یقینی بنانا ہے، جس دوران اس چیلنج کا سامنا کیا جائے گا، جو بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کو درپیش ہے۔‘‘

بڑھتی ہوئی پاک افغان کشیدگی

کئی سکیورٹی ماہرین کی رائے میں یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ ‘عزمِ استحکام‘ اسلام آباد حکومت اور کابل میں حکمران افغان طالبان کے مابین کشیدگی میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔

بروکنگز انسٹیٹیوشن کی فیلو مدیحہ افضل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”انسداد دہشت گردی کے اس نئے آپریشن کا وقت چند نئے عوامل کی عکاسی کرتا ہے: مثلاﹰ یہ کہ بات اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ مکالمت کی ہو اور افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کی قیادت پر دباؤ ڈالے جانے کی، تو پاکستان کو دستیاب دیگر امکانات اب ختم ہو گئے ہیں۔‘‘

مدیحہ افضل نے کہا کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مکالمت اور اس ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم کو دباؤ میں لانے کی جتنی بھی کوششیں کی، وہ کارگر ثابت نہ ہوئیں۔ اسی لیے مارچ میں پاکستان نے سرحد پار افغانستان میں پاکستانی عسکریت پسند گروہوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے تھے۔ اسلام آباد کی طرف سے ایسی کارروائیاں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ان فضائی حملوں میں آٹھ افراد مارے گئے تھے اور افغان فورسز نے مشترکہ سرحد پر جوابی فائرنگ بھی کی تھی۔

پاکستانی فوج نے اگر افغان سرزمین پر کارروائی کی، تو کابل میں طالبان حکومت کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں مدیحہ افضل کا جواب بہت واضح تھا، ”افغان طالبان ایسی کسی بھی کارروائی کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھیں گے اور دوطرفہ کشیدگی میں اضافہ ہو گا، جس سے پاکستان کی مغربی سرحد پر مسائل مزید بڑھیں گے۔‘‘

سابق وزیر اعظم عمران خان نئے فوجی آپریشن کے خلاف

پاکستان میں ہر کوئی اس فوجی آپریشن کے حق میں نہیں ہے۔ اس وقت جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اس فیصلے کی مخالفت کی تھی کہ ملک کے شمال مغرب اور جنوب مغرب میں کوئی نیا فوجی آپریشن شروع کیا جانا چاہیے۔

عمران خان نے اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ یہ موقف اس لیے بھی اہم ہے کہ خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت پی ٹی آئی ہی کی ہے۔

صوبائی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس بارے میں عمران خان سے جیل میں ایک حالیہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ”عمران خان ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی نئے فوجی آپریشن کے خلاف ہیں اور انہوں نے پشاور میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے فوجی آپریشن سے متعلق کسی بھی فیصلے کا حصہ نہ بنے۔‘‘

پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے اپنا نام مخفی رکھے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ آیا فوج اس آپریشن سے متعلق کوئی اتفاق رائے یقینی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بظاہر تو خیبر پختونخوا کی پوری قیادت نے اس آپریشن کو مسترد کر دیا ہے، اس لیے فوج کے لیے اس کی عملی تکمیل مشکل ثابت ہو گی۔‘‘

اس موقف کے برعکس دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں، ”اس آپریشن کا فیصلہ وفاقی سطح پر کیا گیا۔ امکان یہی ہے کہ تمام صوبے اسے اس لیے قبول کر لیں گے کہ اس کا مقصد پاکستانی عوام کو دہشت گردی کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘‘

چین کا پاکستان پر دباؤ؟

کچھ مبصرین کی رائے میں پاکستان کو عسکریت پسندوں کے خلاف یہ نئی فوجی مہم شروع کرنے پر ملک میں چینی شہریوں اور بیجنگ کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری پر کیے گئے متعدد حملوں نے بھی مجبور کیا۔ مارچ کے مہینے میں چینی انجینئروں کے ایک قافلے پر کیے گئے ایک دہشت گردانہ حملے میں کم از کم پانچ چینی شہری اور ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور مارے گئے تھے۔

یہ حملہ پاکستانی سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے آٹھ جنگجوؤں کی ہلاکت کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد کیا گیا تھا۔ ان بلوچ علیحدگی پسندوں نے بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ کے قریب چینی شہریوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا۔

پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی تعداد کا تخمینہ تقریباﹰ 29 ہزار لگایا جاتا ہے، جن میں سے 2,500 سے زیادہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یا سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں