‘خالصتانی ریاست کا خواب جرم نہیں، فخر کی بات ہے’ امرت پال سنگھ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) نو منتخب رکن پارلیمان اور خالصتان نواز رہنما امرت پال سنگھ کی والدہ نے کہا تھا کہ ان کا بیٹے علیحدہ ریاست خالصتان کے حامی نہیں ہیں، اس لیے انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے۔ لیکن امرت پال سنگھ نے اپنی ماں کے بیان کو مسترد کر دیا۔

بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما امرت سنگھ پال نے بھارتی پارلیمان کی رکنیت کا حلف لینے کے ایک دن بعد ہی علیحدہ ریاست خالصتان کے مطالبے کی حمایت کی اور کہا کہ ایک ”خالصہ ریاست کا خواب دیکھنا کوئی جرم کی بات نہیں ہے۔”

امرت پال سنگھ انسداد دہشت گردی جیسے سخت قانون کے تحت گزشتہ ایک برسسے بھی زیادہ وقت سے ریاست آسام کی جیل میں قید ہیں، جنہیں پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے، حلف برداری کے لیے پیرول پر جمعے کے رو دہلی لایا گیا تھا۔ اسی دن دہلی کے تہاڑ جیل میں بند کشمیری رہنما انجنیئر شیخ رشید نے بھی حلف اٹھایا تھا۔

امرت پال سنگھ نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں صوبہ پنجاب کے کھڈور صاحب حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ انجنیئر رشید، جنہیں بھارتی حکومت نے سن 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے ہی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کر رکھا ہے، بھارتی کشمیر کے بارہمولہ حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ دونوں کو حلف برداری کے لیے جیل سے پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔

امرت پال سنگھ نے کیا کہا؟

علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کی والدہ نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا بیٹا بھارت سے علیحدہ ریاست خالصتان کا حامی نہیں ہے اور انہوں نے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

امرت پال سنگھ نے اپنی والدہ کے اس بیان پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ علیحدہ ریاست خالصتان کا خواب دیکھنا ”کوئی جرم نہیں بلکہ فخر” کی بات ہے۔

سوشل میڈیا ایکس پر ان کی ٹیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ”کل جب مجھے والدہ کے بیان کا علم ہوا تو دل بہت اداس ہو گیا۔ مجھے یقین ہے کہ میری والدہ نے یہ بیان غیر ارادی طور پر دیا ہو گا۔ تاہم پھر بھی ایسا بیان میرے خاندان یا کسی بھی ایسے شخص کی طرف سے نہیں آنا چاہیے، جو میری حمایت کرتا ہو۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ”خالصہ ریاست کا خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں ہے۔ یہ فخر کی بات ہے۔ ہم اس راستے سے پیچھے ہٹنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، جس کے لیے لاکھوں سکھوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔”

امرت پال کی قید کی وجوہات کیا ہیں؟

امرت پال سنگھ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں قید ہیں۔ آسام سے دہلی اور پھر جیل تک واپسی کے سفر کے پیش نظر انہیں پانچ جولائی سے چار دن کی حراستی پیرول دی گئی تھی۔

امرت پال سنگھ معروف سابق خالصتانی رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کی اسٹائل میں رہنے کے لیے معروف تھے اور اکثر سکھوں کے حقوق کی بات کیا کرتے تھے۔ گزشتہ برس ریاست پنجاب کی پولیس نے ان کے خلاف متعدد کیسز درج کیے اور ایک ماہ سے زیادہ عرصے کی تلاش کے بعد گزشتہ سال 23 اپریل کو انہیں موگا کے ایک گاؤں سے گرفتار کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اجنالہ میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بعد ان کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ اس واقعے میں امرت پال سنگھ اور ان کے حامی رکاوٹیں توڑ کر امرتسر کے مضافات میں واقع تھانے میں داخل ہوگئے، جس میں پولیس کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی تاہم انہوں نے اپنے ایک معاون ساتھی لوپریت سنگھ طوفان کو رہا کر وا لیا تھا۔

بھارتی حکومت نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بدامنی پھیلانے، قتل کی کوشش، پولیس اہلکاروں پر حملہ اور سرکاری ملازمین کے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے جیسے متعدد فوجداری مقدمات کے تحت کیسز درج کر رکھا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں