پاکستان: ایکس سے ‘قومی سلامتی کو خطرہ ہے’، وزارت داخلہ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستانی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پابندی کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ اس سے ‘امن اور قومی سلامتی کو خطرہ لاحق’ ہے۔ حکومت نے سوشل میڈیا ایکس پر یہ پابندی گزشتہ فروری میں عائد کی تھی۔

پاکستان میں وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس، جو پہلے ٹوئٹر ہوا کرتا تھا، پر مہینوں سے عائد پابندی کا اس بنیاد پر دفاع کیا ہے کہ یہ ملک کے ”امن اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ” ہے۔

وزارت داخلہ نے اس حوالے سے پیر کے روز عدالت میں جو جواب داخل کیا ہے اس کے مطابق ایکس ”غلط معلومات پھیلانے کا ذریعہ ہے اور یہ تشدد کو ہوا دیتا” ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں اس پر پابندی کے حوالے سے ایک سماعت کے دوران وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا، ” ایکس پر سرگرم دشمن عناصر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے، افراتفری پھیلا کر عدم استحکام کی صورت حال پیدا کر کے انارکی پھیلانے جیسے مذموم عزائم رکھتے ہیں۔”

حکومت نے اپنی دلیل میں مزید کہا کہ ”ریاستی اداروں کے خلاف ہتک آمیز مہم” میں ملوث معاشرے کے عناصر ”غلط معلومات پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے” کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ملک کے امن اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔”

حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اسی لیے، ”ایکس پر پابندی ان عناصر کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے اور انہیں ان کے تباہ کن مقاصد کے حصول سے روکنے کے لیے ایک ضروری قدم کے طور پر کام کرتی ہے۔”

وزارت داخلہ نے آئین کی دفعہ 19 کے حوالے سے کہا کہ ایکس پر پابندی کا مقصد آزادی اظہار پر قدغن لگانا یا معلومات تک رسائی کو محدود کرنا نہیں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد ملکی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانا ہے۔

وزارت داخلہ نے مزید کہا، ”پاکستانی شہریوں کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریر، تشدد پر اکسانے، یا غلط معلومات پھیلانے کا سہارا لیے بغیر، قانون کی حدود کے اندر اور سماجی اصولوں کے احترام کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔”

پاکستانی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے مشاہدے کے مطابق ایکس پلیٹ فارم ”قانونی ہدایات” اور وفاقی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وزارت داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے ایکس پلیٹ فارم نہ تو ملک میں رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی اس نے کسی بھی مفاہمت کی یادداشت یاملکی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

اس نے بتایا کہ ایک غیر ملکی ادارے کے طور پر اسے حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل سمیت ”ملک کے دیگر ریگولیٹری فریم ورک کے تابع ہونا چاہیے۔ تاہم یہ پلیٹ فارم قانونی موجودگی قائم کرنے یا حکام کے ساتھ بامعنی تعاون کرنے میں ناکام رہا ہے۔”

اس نے پابندی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا، ”وزارت داخلہ پاکستانی عوام کے مفادات کے تحفظ، قوم کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے نیز ایکس پر پابندی اس سمت میں ایک ضروری قدم ہے۔ یہ قدم قانون کی حکمرانی اور جمہوری حکمرانی کے اصولوں کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔”

ٹک ٹاک پر پہلے کی پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت داخلہ نے کہا کہ حکومت نے اس کے بھی ”قابل اعتراض مواد” پر پابندی لگا دی تھی، تاہم جب پلیٹ فارم نے ایک ایم او یو پر دستخط کر دیے اور ملکی قوانین کی تعمیل کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو پابندی ہٹا دی گئی۔

حکومت نے یہ دلیل دیتے ہوئے پابندی کے خلاف درخواستوں پر بھی سوال اٹھایا کہ درخواست گزاروں کے پاس مقدمہ دائر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ اس سے کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔

حکومت نے عدالت سے استدعا کی کہ پابندی کے خلاف اس درخواست کو خارج کر دیا جائے۔

اس سے پہلے پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر ملک میں ایکس کو انٹیلیجنس ایجنسیوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر بلاک کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے 17 فروری کو معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پابندی لگا دی تھی، تب سے یہ سروس ملک میں دستیاب نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں