اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اس ملاقات میں گزشتہ سال اسلام آباد میں مہاجرین کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزارنے والے افغان مہاجرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان طویل عرصے سے ایک اندازے کے مطابق 1.7 ملین افغانوں کی میزبانی کرتا رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر 1979- 1989 کے سوویت قبضے کے دوران افغانستان سے نکل کر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
2021 میں افغانستان مییں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پانچ لاکھ سے زائد افراد افغانستان چھوڑ گئے تھے، جن میں سے ہزاروں امریکہ اور دیگر ممالک میں جانے کے لیے پاکستان میں انتظار کرتے رہے تھے۔ گزشتہ برس نومبر میں بڑے پیمانے پر پابندیوں کے آغاز کے بعد سے، ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ افغان وطن واپس جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی اتوار سات جولائی کو پاکستان پہنچے تھے، جس کے بعد انہوں نے افغان مہاجرین سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا: ”میں نے افغان پناہ گزینوں کے ساتھ وقت گزارا، جن کی وسائل ان کی طاقت اور پاکستان کی طویل مہمان نوازی کا ثبوت ہیں۔‘‘ گرینڈی نے مزید کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ”اس بات پر تبادلہ خیال کرنا ہے کہ ہم بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے درمیان دونوں کی بہترین مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ کو بتایا کہ متعدد چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ”مثالی احترام اور وقار‘‘ کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ ”اتنی بڑی پناہ گزین آبادی کی میزبانی کرتے ہوئے پاکستان کے کندھوں پر پڑنے والے بوجھ کو تسلیم کرے اور اجتماعی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔‘‘
پاکستانی وزیر اعظم نے افغان پناہ گزینوں کو ”محفوظ اور باوقار‘‘ طریقے سے وطن واپس بھیجنے کے لیے یو این ایچ سی آر سے مدد کی بھی درخواست کی۔
گرینڈی نے آج منگل کے روز افغانستان کے لیے ملک کے خصوصی نمائندے آصف درانی سے بھی ملاقات کی۔ درانی نے ایکس پر لکھا کہ دونوں فریقوں نے ”افغان پناہ گزینوں کے مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا، جس میں ان کی واپسی بھی شامل ہے۔‘‘
اس سے قبل پاکستان نے کہا تھا کہ کریک ڈاؤن میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں، چاہے وہ کسی بھی قومیت کے ہوں۔
اقوام متحدہ کے ادارے پاکستان سے افغانوں کی جبری بے دخلی کی مذمت کرتے رہے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس سے خاندانوں کی علیحدگی اور کم عمر بچوں کی ملک بدری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔
کریک ڈاؤن کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے وطن واپس آنے والے شہریوں سے نمٹنے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ساتھ ہی اسلام آباد کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
پاکستان میں حالیہ چند ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، جن میں سے زیادہ تر کا الزام پاکستانی طالبان پر لگایا جاتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان سے الگ ایک عسکریت پسند گروپ ہے لیکن افغان کا قریبی اتحادی ہے۔
پاکستان میں افغان پناہ گزین کے مسائل
واضح رہے کہ یو این ایچ سی آر نے غیر دستاویزی غیر ملکیوں کے ملک چھوڑنے کے پاکستانی اعلان پر تشویش کا اظہار کیا تھا، کیونکہ اس پالیسی سے رجسٹرڈ مہاجرین اور دیگر قانونی دستاویزات کے حامل افغانوں پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جب پاکستان نے بغیر دستاویز والے غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا، تو اس وقت افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے بھی اس پر ناراضی کا اظہار کیا تھا اور آپریشن کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق یکم نومبر 2023 سے اب تک تقریباً پانچ لاکھ افغان باشندے، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں تھیں، کو افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کے کمشنر عباس خان نے ان افواہوں کو بھی مسترد کیا کہ پاکستان نے ان لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کر دیا ہے، جن کے پاس افغان شہری کارڈ (اے سی سی) ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اب بھی آٹھ لاکھ سے زیادہ ایسے افغان مہاجر موجود ہیں، جن کے پاس افغان شہری کارڈ (اے سی سی) ہے۔
پاکستان نے سن 2017 میں غیر دستاویزی افغانوں کو اے سی سی کارڈ جاری کیے تھے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کے اندازوں کے مطابق تقریباً 13 لاکھ ایسے رجسٹرڈ افغان ہیں، جن کے پاس ‘پروف آف رجسٹریشن کارڈ’ (پی او آر) ہیں۔
پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے تقریباً سات لاکھ افغان پاکستان پہنچے۔ ان میں سے بیشتر کسی تیسرے ملک میں آباد ہونے کے متمنی ہیں، تاہم اب تک تقریباً 75 ہزار ہی دوسرے ممالک منتقل ہو پائے ہیں۔