افغانستان: طالبان کی ‘پولیس’ کا خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈپی اے) اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی ‘اخلاقی پولیس’ کے دستے مغربی طرز کے بال کٹوانے اور موسیقی پر پابندی لگانے کے ساتھ ہی خواتین کو بغیر مرد کے سفر کرنے سے بھی منع کرتے ہیں۔

منگل کے روز شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے بھی ”اخلاقی پولیس” کو تعینات کر رکھا ہے، جو افغانستان میں مذہبی قانون کو سختی سے نافذ کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں اسلام پسند عسکریت پسند گروپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے ملک میں ”خوف کی فضا” پیدا کر رکھی ہے اور شریعت کے نفاذ کے لیے ‘اسلام کی تبلیغ و نہی عنی المنکر’ سے متعلق ایک نام نہاد وزارت قائم کی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یو این اے ایم اے نے اس وزارت سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق کہ یہ وزارت انسانی حقوق اور آزادیوں کے خاتمے کی ذمہ دار ہے، جو بالخصوص خواتین کے ساتھ تفریق اور غیر منصفانہ سلوک کر کے انہیں نشانہ بناتی ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی طالبان نے لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ہی روک دیا تھا، جبکہ خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے الگ رکھا گیا ہے۔

رپورٹ کیا کہتی ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت نہی عنی المنکر اسلامی قوانین کی ایسی سخت تشریح کو نافذ کرتی ہے کہ جو آزاد پریس اور سول سوسائٹی کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ہی خواتین اور لڑکیوں کی ذاتی آزادیوں پر کریک ڈاؤن کرتی ہے۔

اخلاقی پولیس کے دستوں کے پاس ایسے شہریوں کو ڈانٹنے، گرفتار کرنے اور سزا دینے کا اختیار حاصل ہے، جو مغربی طرز کے ہیئر اسٹائل اور ممنوعہ موسیقی” سمیت تمام ”غیر اسلامی” سمجھی جانے والی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہوں۔”

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق افغان طالبان کی اس مذکورہ وزارت نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور دعویٰ کیا کہ اس کے ایسے حکم نامے ”معاشرے کی اصلاح” کے لیے جاری کیے گئے تھے، جن پر ”عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔”

خواتین کو بغیر مرد ساتھی سفر کی اجازت نہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی مذکورہ وزارت کی جانب سے افغان باشندوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت، اس کے قانونی اختیارات پر ابہام اور ”غیر متناسب سزاؤں کی” وجہ سے ”خوف و ہراس کا ماحول” ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ طالبان حکومت نے خواتین کے بغیر محرم کے سفر کرنے پر جو پابندی لگائی ہے، اس کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔

اس نے خواتین کے لیے ایک قدامت پسند لباس کوڈ بھی نافذ کیا ہے، جبکہ خواتین کو عوامی پارکوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے اور جو کاروبار خواتین کے زیر انتظام چلتے تھے، انہیں بھی بند کر دیا گیا ہے۔

ادھر طالبان کی حکومت نے خواتین کے لیے محرم کے بغیر سفر کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ خواتین کی ”عزت اور عفت کی حفاظت کے لیے” اسلامی لباس کا نفاذ ان کی ”خدا کی طرف سے عائد کردہ فرائض میں سے” ہے۔

مغربی طرز کے بال رکھنے پر پابندی

طالبان کی اخلاقی پولیس ”روزمرہ کی زندگی میں مردوں اور خواتین کے درمیان میل جول کو کم کرنے کے اقدامات” بھی نافذ کرتی ہے۔ یہ پولیس دستے حجاموں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ مردوں کے ”مغربی طرز کے” بال کاٹنے سے منع کر دیا کریں اور وہ موسیقی بجانے والے لوگوں کو گرفتار بھی کرتے ہیں۔

ادھر طالبان کی وزارت نے عوامی مقامات پر خواتین پر پابندی لگانے کی تردید کی اور کہا کہ وزارت صرف مخلوط صنفی ماحول میں مداخلت کرتی ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو دیر گئے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ ”افغانستان کو مغربی نقطہ نظر سے پرکھنے کی کوشش کر رہی ہے”، جب کہ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے۔

مجاہد نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ”اسلامی قانون میں تمام شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، مردوں اور عورتوں کے ساتھ شرعی قانون کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے، اور کوئی ظلم نہیں ہوتا۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں