‘فری فلسطین’ کا نعرہ لگانے والا طالبِ علم متحدہ عرب امارت سے مبینہ طور پر ملک بدر

ابوظہبی (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی کی گریجویشن تقریب کے دوران ‘فری فلسطین’ کا نعرہ لگانے والے طلبہ کو مبینہ طور پر ڈی پورٹ کرنے کے معاملے پر طلبہ اور مختلف حلقوں کا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

مذکورہ طالبِ علم کو رواں برس مئی میں مبینہ طور پر ڈی پورٹ کیا گیا، تاہم اب یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر اسرائیل، حماس تنازع کے دنیا پر ہونے والے اثرات کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ (اے پی) رواں سال مئی میں متحدہ عرب امارت (یو اے ای) کے دارالحکومت ابوظہبی میں نیو یارک یونیورسٹی کے کیمپس میں گریجویشن کی تقریب جاری تھی۔ اسی دوران ایک طالبِ علم نے جس کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سیاہ اور سفید رنگ کا ‘کوفیہ’ اسکارف پہنا ہوا تھا، اپنا ڈپلومہ لینے کے لیے اسٹیج عبور کیا اور “فری فلسطین!” کا نعرہ لگایا۔ کچھ دن بعد اس طالبِ علم کو مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات سے ڈی پورٹ کردیا گیا۔

اس طالبِ علم کا نام اور شہریت فی الحال سامنے نہیں آ سکی ہے۔

گریجویشن کی تقریب میں یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب متحدہ عرب امارات اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں اسرائیل کے ساتھ اپنی سفارتی تعلقات میں توازن کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسرائیل دبئی میں قونصل خانہ جب کہ ابو ظہبی سے باہر سفارت خانہ چلا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ایئرلائنز کی اسرائیل کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کرنے میں سست روی کے باوجود یو اے ای سے روزانہ اسرائیل کی پروازیں جاری ہیں۔

سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملے کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ جواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملوں کا آغاز کیا جس میں اب تک غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 38 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اگرچہ امارات کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے امداد دی جا رہی ہے۔ لیکن اس نو ماہ سے زائد عرصے سے اس جنگ کے خلاف یو اے ای میں اس طرح کے بڑے مظاہرے نہیں دیکھے گئے جیسے دیگر عرب ممالک میں ہوئے۔

متحدہ عرب امارات جو سات ریاستوں پر مشتمل ہے وہاں اظہارِ رائے یا تقریر کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس ملک میں سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی ہے۔

یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں جنگ سے متعلق اظہارِ خیال یا کسی بھی قسم کے مظاہرے یا احتجاج پر مکمل پابندی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں ثقافتی تقریبات میں جو کوفیہ پہنا ہوا ہو اسے داخلے سے روک دیا گیا ہے۔

ایک طالبِ علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر ہم آزادی اظہار وغیرہ کی بات کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو مغرب کو ناپسند ہو۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے این وائی یو ابو ظہبی کا کہنا تھا کہ وہ کیمپس پر “اکیڈمک اتھارٹی کی ضامن” ہے۔ لیکن ہمارے کسی بھی کیمپس پر این وائی یو کمیونٹی کے اراکین کو مقامی قانون سے استثنیٰ نہیں ہے۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ملک کی کسی بھی امیگریشن یا قانون نافذ کرنے کے اقدامات یا فیصلوں پر یونیورسٹی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ان کے بقول وہ طلبہ کو توقعات، ذمہ داروں اور حدود کے بارے میں واضح طور پر اور بار بار ہدایات دیتے ہیں جن میں این وائی یو ابوظہبی کی گریجویشن کے لیے پروٹوکولز بھی شامل ہیں۔

اماراتی حکومت نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

ایک اور طالبِ علم نےکارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گریجویشن کی تقریب سے قبل طلبہ کو بتایا گیا تھا کہ “کیمپس میں کہیں بھی فلسطینی پرچم آویزاں کرنے کی اجازت نہیں ہے، یہاں تک کہ رہائشی عمارتوں میں بھی اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔”

مجموعی طور گریجویش کرنے والے پانچ طلبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسی طرح کے حالات کا ذکر کیا جس سے وہ لوگ متاثر ہوئے جن کا خیال تھا کہ وہ کوفیہ کی مدد سے فنڈ جمع کریں گے اور غزہ میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعائیہ تقریب کریں گے۔

مئی میں این وائی یو ابوظہبی سے گریجویشن کرنے والے جیکلین ہینیکے نے ‘اے پی’ کو بتایا کہ گریجویشن کی تقریب سے قبل یونیورسٹی نے ایک ای میل بھیجی تھی جس میں اسکارف سمیت تمام “ثقافتی لباس” پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

آزادی اظہار اور علمی آزادی کی کوششوں کی حمایت کرنے والی امریکن ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی پروفیسرز کے مطابق وہ طالبِ علم جس نے اس حکم کو نظر انداز کیا اور اسٹیج پر “فری فلسطین!” کا نعرہ لگایا وہ ملک بدری سے قبل پولیس کی تحویل میں بھی رہا۔

ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ یونیورسٹی طلبہ، اسٹاف اور فیکلٹی کو حراست میں لینے اور سرکاری سیکیورٹی دفاتر میں پوچھ گچھ سے بچانے میں ناکام رہی ہے اور ایک اکیڈمک اسٹاف ممبر اور گریجویٹ طلبہ کی ملک بدری روکنے میں بھی ناکام رہی ہے۔

بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ مغربی ممالک سے تعلق نہ رکھنے والے اسٹاف اور طلبہ کو “نگرانی کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا، ڈرایا گیا اور ملک بدر کردیا گیا۔” البتہ تنظیم نے اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ابوظہبی کی نیو یارک یونیورسٹی کو متحدہ عرب امارات میں ایک امریکن لبرل آرٹس ایجوکیشن کے خیالات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے کٹر اتحادی ہونے کے باوجود این وائی یو ابوظہبی کے تقریر کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپس کیمپس کی تعمیر کے دوران تارکینِ وطن مزدوروں کے استعمال پر یونیورسٹی پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے بقول تعلیمی ادارے نے ان کے ساتھ متعدد خلاف ورزیاں کیں جس میں ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے بھرتی کی فیس ادا کرنے پر مجبور کرنا، پُرہجوم جگہوں پر رہنا اور اوورٹائم کام پر مجبور کرنا شامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں