کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ ظہیر بلوچ نامی جس شخص کی بازیابی کے لیے کوئٹہ میں مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر بشیرزیب کے بھائی ہیں۔
ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ کے ہمراہ جمعرات کی شب ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والی پانچ خواتین کو رہا کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مبینہ طورپر جبری طورپر لاپتہ کیے جانے والے ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لیے کوئٹہ کے ریڈزون میں احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔
ظہیر بلوچ محکمہ پوسٹل سروسز کے ملازم ہیں جنھیں ان کے رشتہ داروں کے بقول دفتر سے گھر آتے ہوئے لاپتہ کیا گیا۔
ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لیے گزشتہ دو ہفتے سے سریاب روڈ پر احتجاج کیا جارہا تھا لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جمعرات کو ریڈ زون میں احتجاج کا اعلان کیا۔
ریڈ زون آتے ہوئے سب سے پہلے مظاہرین پر بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے آنسو گیس کی شیلنگ اور پھر لاٹھی چارج کیا گیا۔ تاہم مظاہرین منتشر نہیں ہوسکے اور انھوں نے دوبارہ ریڈ زون کی جانب مارچ کیا۔
وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ کہا کہ یہ لوگ گزشتہ دس بارہ روز سے سریاب روڈ پر احتجاج کررہے تھے لیکن ہم نے ان کو کچھ نہیں کہا لیکن آج وہ ریڈ زون کی طرف آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کو کہا کہ وہ ریڈ زون نہیں آئیں بلکہ پریس کلب کے باہر مظاہرہ کریں کیونکہ ریڈزون میں ریاست کے کام متائثر ہوتے ہیں لیکن وہ پریس کلب نہیں گئے بلکہ ریڈ زون کی جانب آئے۔
وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ظہیر زیب کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب کے بھائی ہیں لیکن وہ ہمارے ریاستی اداروں کے پاس نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بشیر زیب دوسرے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اکساتے ہیں اور ان کو دہشت گردی کے کیمپوں میں بلاتے ہیں تو کیا وہ اپنے بھائی کو ان کیمپوں میں نہیں بلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی پریس کانفرنسوں میں یہ کہتے رہے ہیں یہ لوگ بی ایل اے کے کیمپوں میں جاتے رہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مظاہرین نے پولیس والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے ویڈیوز ہمارے پاس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جرم جرم ہوتا ہے خواہ وہ مرد کرے یا خواتین کرے لیکن ہمارے ہاں خواتین کا احترام ہے ۔ خواتین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کسی احتجاج کے دوران ایسا رویّہ اختیار کریں جس سے ان کا اور فورسز کے اہلکاروں کا احترام برقرار رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ خواتین نے جرم کیا ہے لیکن وزیر اعلیٰ نے گرفتار ہونے والی پانچ خواتین کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے کہا کہ پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا جس سے پولیس کے پانچ اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کی 12 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر پولیس پر تشدد اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر مجموعی طور پر 27 افراد کو گرگرفتار کیا گیا۔
ریڈزون کے قریب جی پی او چوک پر ان پر دوبارہ لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جس سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے۔
کوئٹہ میں مظاہرین پر تشدد کے خلاف مستونگ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کامطالبہ ہے اگر ظہیر بلوچ پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے ورنہ ان کو رہا کیا جائے۔