سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارتی کشمیر کی انتظامیہ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عبوری صدر نذیر احمد رونگا کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظر بند کردیا ہے۔
پولیس نے بُدھ اور جمعرات کی درمیانی شب 75سالہ رونگا کو سرینگر میں واقع اُن کے گھر سے گرفتار کر کے مقامی تھانے منتقل کردیا تھا۔
ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے رونگا کو پی ایس اے کے تحت نظر بند کرنے کے احکامات صادر کیے جانے کے بعد انہیں جموں کی کوٹ بلوال جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
https://x.com/umairronga/status/1811142685455176144?t=8iDaAMVzZNCZCqvKvQtIWA&s=19
جموں و کشمیر میں 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر باضابطہ مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک کے عرصے کے لیے قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایک حکومتی کمیٹی ان کیسز کا جائزہ لیتی رہتی ہے۔
جون 2018 میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں پی ایس اے کے قانون کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا تھا۔
رونگا دو مرتبہ جمو و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (کشمیر چپٹر) کے تنظیمی انتخابات کرانے کے لیے نوٹی فکیشن جاری ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی نذیر احمد رونگا کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سیاسی مبصرین ان کی گرفتاری کو حکومت کی جانب سے کشمیری علیحدگی پسند تحریک کے حامی وکلا کے خلاف کریک ڈاؤن کی تازہ کڑی قرار دے رہے ہیں۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے گزشتہ پانچ برس سے بار ایسوسی ایشن کو تنظیمی انتخابات کرانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
شروع میں یہ کہا گیا تھا کہ اس سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر کرونا وبا کو اس طرح کے انتخابات پر روک لگانے کی وجہ بتایا گیا۔
سرینگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ تازہ حکم نامے میں بار ایسوسی ایشن کے انتخابات روکنے کے لیے یہ جواز پیش کیا گیا کہ یہ غیر رجسٹرڈ تنظیم ہے اور پولیس کی رپورٹ کے مطابق علیحدگی پسند نظریات رکھتی ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ تنظیم ملک دشمن افراد کو قانونی مدد فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
ضلع مجسٹریٹ کے اس حکم نامے کے ردِ عمل میں ایسوسی ایشن نے کہا تھا کہ تین ہزار سے زائد ممبران کی یہ تنظیم جموں و کشمیر میں گزشتہ تقریباً نصف صدی سے نظامِ انصاف مستحکم بنانے کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے۔
ایسوسی ایشن نے ضلع مجسٹریٹ کو لکھے گیے ایک خط میں کہا ہے کہ تنظیم کو غیر قانونی اور غیر رجسٹر شدہ قرار دیناناقابلِ قبول ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (کشمیر چپٹر) دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں میں شامل ہے۔
اس دفعہ کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقے قرار دے دیا گیا تھا۔
بار ایسوسی ایشن کے ایک اور سابق صدر 80 سالہ میاں عبدالقیوم کو بھی ایک قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
میاں عبدالقویوم علیحدگی پسند سیاسی جماعتوں کے لیڈورں کے نہ صرف قریب رہے ہیں بلکہ انہوں نے تحریکِ مزاحمت میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
حکومتی حلقے اور ناقدین انہیں علیحدگی پسند تحریک کے نظریہ ساز قرار دیتے ہیں۔ ان پر اپنے حریف وکلاء کو ڈرانے اور دھمکانے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔
نذیر رونگا کی گرفتاری پر رد عمل
رونگا کے بیٹے عمیر رونگا ایک وکیل اور بار ایسوسی ایشن کے سرگرم رکن ہیں۔ وہ اپنے والد کی پی ایس اے کے تحت نظر بندی کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔
عمیر رونگا کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی گرفتاری کے پیچھے ان کے مخالفین اور ان سے پیشہ وارانہ حسد رکھنے والوں کا ہاتھ ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی رونگا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
سماجی ویب سائٹ ایکس کی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکومت نہ صرف عسکریت پسندی ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ یہ اپنی خفت مٹانے کے لیے بے بس کشمیریوں پر کریک ڈاؤن کررہی ہے۔ ان کے بقول نذیر رونگا جابرانہ اقدامات کا تازہ شکار ہیں۔
کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ محمد عمر فاروق نے کہا کہ نذیر احدم رونگا ان کی تنظیم کی عوامی مجلسِ عمل کے دیرینہ رکن ہیں۔ ان کی گرفتاری ان کے اور پارٹی کے دیگر ممبران کے لیے باعثِ پریشانی ہے۔
میرواعظ عمر نے مزید کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اہلِ اقتدار نے عوام میں خوف و دہشت پھیلانے کی کی پالیسی روا رکھی ہوئی ہے۔
عمیر رونگا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نظر بندی کے لیے جاری کیے گئے سرکاری دستاویزات ملنے کے بعد وہ اپنے والد کی گرفتاری کے خلاف عدالتِ عالیہ سے رجوع کریں گے۔