واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) امریکی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق مبینہ سازش میں جرمنی میں ہتھیار بنانے والی ایک بڑی کمپنی رینمیٹال کے سی ای او کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کمپنی یوکرین کو توپ خانے کے گولے اور ٹینک فراہم کرتی ہے۔
امریکی میڈیا ادارے سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح جرمنی کی معروف اسلحہ ساز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو قتل کرنے کی مبینہ روسی سازش کو رواں برس کے شروع میں امریکی اور جرمن حکام نے ناکام بنا دیا تھا۔
سی این این نے جرمن حکومت کے ایک سینیئر اہلکار سمیت پانچ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ہتھیار بنانے والی ایک بڑی جرمن کمپنی رینمیٹال چونکہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، اس لیے کمپنی کے سی ای او ارمین پیپرگر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اس سازش کے بارے میں اپنے جرمن ہم منصبوں کو مطلع کیا، جس کی بنیاد پر بعد میں پیپرگر کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔
نیو یارک ٹائمز نے بھی اس سازش کے بارے میں رپورٹ کیا، جس میں کہا گیا کہ سازش کو ناکام بنانے میں متعدد مغربی حکام شامل تھے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کا کہنا کہ اس نے اس حوالے سے نیٹو کے سفارت کاروں سے بات چیت کی۔
سی این این کے مطابق کریملن نے یورپی ہتھیاروں کی صنعت سے وابستہ ان اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بناتے ہوئے سلسلہ وارقتل کا منصوبہ بنایا تھا، جن کی کمپنیاں روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی مسلح افواج کی مدد کر رہی ہیں۔
لیکن باقی منصوبوں کے برعکس جرمن کمپنی رینٹیال کے سی ای او پیپرگر کے قتل کا پلان کافی آگے بڑھ چکا تھا۔
ادھر اسلحہ ساز کمپنی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حفاظتی اقدامات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اس نے خبر رساں ایجنسیوں کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ سکیورٹی حکام کے ساتھ باقاعدہ مشاورت کے دوران ”ضروری اقدامات ہمیشہ کیے جاتے ہیں۔”
پیپرگر نے فرینکفرٹ کے ایک مقامی میڈیا ادارے کو بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں یوکرین میں جنگ جاری رہے گی اور اس وجہ سے، 2024 میں کمپنی کو چالیس فیصد تک اضافی فائدے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس نے اپنی پوری صنعتی بنیاد کو جنگ کے وقت کی معیشت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور ”یہ ہمیشہ کے لیے چل سکتا ہے۔”
جرمن چانسلر اولاف شولز نے نیٹو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم انہوں نے کہا حکومت ان بے شمار خطرات سے بخوبی آگاہ تھی۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بھی نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر یہ بات تسلیم کی۔ انہوں نے کہا کہ روس کی یہ مہم ”ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہمیں بطور یورپی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مل کر محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”
وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جرمن حکومت ”روسی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہو گی اور جرمنی میں ممکنہ خطرات کو روکنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گی۔”
‘روس عناد کی مہم کا نمونہ دکھا رہا ہے’
اس ہفتے واشنگٹن میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ روس نے سائبر حملے اور زہر دینے سمیت ”نیٹو اتحادیوں کے خلاف دشمنانہ کارروائیاں کرنے” کے ایک ”نمونے” کی نمائش کی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مواصلاتی مشیر جان کربی نے کہا کہ وہ ”خفیہ خدمات کے امور کے بارے میں بات نہیں کر سکتے” تاہم ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا ماننا ہے کہ ”مغرب یوکرین کو جو مدد فراہم کر رہا ہے وہ جنگ کو طول دینے والی واحد چیز ہے۔”