اسرائیلی بائیکاٹ: تحریک لبیک پاکستان نے فیض آباد کے مقام پر پھر دھرنا دے دیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے دھرنا دے دیا ہے۔

ٹی ایل پی کے ایک ترجمان امجد رضوی نے بی بی سی کے شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے اس دھرنے کی تصدیق کی ہے اور یہ کہا ہے کہ ان کی جماعت کے حکومت سے تین مطالبات ہیں۔

ان مطالبات میں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ، نتن ہایو کو دہشت گرد قرار دینا اور فلسطین کو میڈیکل وغیرہ کی امداد مہیا کرنا شامل ہیں۔

ٹی ایل پی نے ان مطالبات کے پورا ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ چند برس قبل تحریک لبیک نے فیض آباد کے مقام پر ایک دھرنا دی تھا جس پر سپریم کورٹ نے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔

ٹی ایل پی کا ماضی کا فیض آباد دھرنا کیا تھا؟

پانچ نومبر 2017 کو فیض آباد کے مقام پر ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کروانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیرِ بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

حکومت کی جانب سے اس حوالے سے سنہ 2023 میں تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، دو ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل تھے۔

ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا تھا۔

بعد ازاں اس وقت سپریم کورٹ کے جسٹس (اب چیف جسٹس) قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سات فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے ٹی ایل پی کی جانب سے 2017 میں فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ’کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو‘ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مقدمہ چلایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں